احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
چرخ اگر گردد بفرمانت برآن ہم دل بند اے برادر کار طفلان است فرفر داشتن خود کرامت شوکرامت چند جوئی زان وایں تاتوانی برگ بے برگی میسر داشتن شہد جو یاشہد شو خوشترکدام انصاف دہ طعم شکر داشتن یا طمع شکر داشتن چیست بااعجاز کارت گرتوئی شیداے ذات زشت باشد نوعروسے رادوشوہر داشتن ہم کو مندرجہ بالا اشعار کا مطلب سمجھانا بھی ضروری ہوا۔ کیونکہ سخن فہمی مرزا ومرائیاں معلوم۔ مطلب یہ ہے کہ ’’اگرچہ کبھی کبھی‘‘ بوجہل جیسے لوگوں کے لئے چاند کے دو ٹکڑے کر ڈالنا اور پتھر کو سونا بنانا لازم ہے۔ لیکن مردان الٰہی کو کرامت اور معجزہ طلب کرنے سے عار آنی چاہئے۔ کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ معشوق کے اصلی اور ذاتی حسن پر تو نظر نہیں۔ صرف زیور پر نظر ہے۔ اگر آسمان بھی تیرے حکم پر پھرنے لگے تو فریفتہ نہ ہو کیونکہ بچے چمڑے کی بہت سی پھرکیاں پھراتے رہتے ہیں۔ ایں وآن زید وعمرو سے کب تک کرامت ڈھونڈھتا پھرے گا تو بے سروسامانی ہی کو اپنا سامان بنا بھلا دیکھ تو سہی وہ شخص اچھا ہے جو شہد کا طالب ہے یا وہ اچھا ہے جو خود شہد بن گیا ہے۔ اگر تو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حسن ذات کا شیدا ہے تو تجھے معجزے سے کیا کام۔ نو عروس کے لئے دو خاوندوں کا ہونا نہایت مکروہ ہے۔‘‘ مگر یہاں تو آسمانی نشان صرف پیشین گوئیاں ہیں۔ حالانکہ ایک بھی پوری نہ ہوئی۔ فلاں مارا جائے گا فلاں دھرا جائے گا اور فلاں شخص جو مر گیا تو مرزاقادیانی سے سوء عقیدت رکھتا تھا۔ کیا یہ نبی کا کام ہے۔ یہ تو مداری کے پھنک ایک پھنک دو سے بھی گیا گزرا۔ رمضان میں کسوف وخسوف ہوا۔ یہ مسیح موعود کا آسمانی نشان ہے۔ شب کو جو شہاب ثاقب ٹوٹتے رہتے ہیں تو یہ بھی مسیح موعود کے آسمانی نشان ہیں۔ پچھلے جاڑوں میں راتیں بڑی ہوگئی تھیں اور ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اب گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوں گی تو یہ مسیح موعود کے مقدم کی نشانیاں ہیں۔ طاعون ملعون پھیلا یہ بھی مسیح موعود کے ظہور کی برکات ہیں۔ ہم کو مرزا جی بتائیں کہ یہ مسیح موعود کے قدوم کا تشائم ہے یا تفاول اور جب بمبئی وغیرہ میں طاعون پھیلا تھا تو مرزاقادیانی نے پیشین گوئی کی تھی کہ تمام ہندوستان میں پھیلے گا اور جب ممالک مغربی وشمالی میں ریل کی پٹری بچھی تھی تو مرزاقادیانی نے کہہ دیا تھا کہ پنجاب میں بھی ضرور بچھے گی۔ پس یہ آسمانی نشانات ہیں۔ دریں چہ شک۔