احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بڑھ کر ہے کہ ان کے بعد خدا دوسرا بیٹا پیدا نہ کر سکے گا۔ جب ایک ایک انسان کے بیس بیس اور تیس تیس اولادیں ہوتی ہیں تو کیا مرزاقادیانی کا خدا انسانوں بلکہ حیوانوں، حشرات الارض اور دریائی جانوروں سے بھی گیا گزرا۔ ہر مچھلی ایک جھول میں سینکڑوں انڈے دیتی ہے جن سے ہزاروں بچے نکلتے ہیں۔ مگر اب چونکہ مرزاقادیانی کے نزدیک ان کا خدا ایک بیٹا نکلوا کر عنین اور عقیم ہوگیا ہے تو مرزاقادیانی کو اس نے مجبوراً بمنزلہ یعنی لے پالک بیٹا بنا لیا ہے۔ اگرچہ ایک حقیقی اور صلبی بیٹا (عیسیٰ مسیح) پہلے ہی موجود تھا مگر مرزاقادیانی کے خدا کی ہوس اور بڑ بھس انسانوں اور حیوانوں کو دیکھ کر بڑھی کہ ان کے تو اتنے بیٹے اور میرے ایک ہی۔ پس غریب خدا کو بیسیویں صدی میں ایک لے پالک بنانے کی ضرورت پڑی اور یہ ضرورت مرزاقادیانی کے دعویٰ سے معلوم ہوئی کہ پہلا بیٹا ناخلف تھا۔ کذاب تھا۔ ایسا تھا اور ویسا تھا۔ اسی لئے مجھے خدا نے لے پالک بنایا۔ پس میں ہی خلف ارجمند ہوں اور مجھی سے خدا کی نسل جاری ہوگی اور یہودی بھی یہی کہتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح نے اسی لئے کسی عورت سے نکاح نہیں کیا کہ وہ عنین تھا اور عصمت بی بی از بیچادری کا مضمون تھا۔ (معاذ اﷲ) الہام کا پہلا فقرہ تو ’’انت بمنزلۃ ولدی‘‘ اور دوسرا فقرہ ’’انت توحیدی وتفریدی‘‘ ہے۔ چونکہ پہلے فقرے پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ جب خدا کے صلبی یا لے پالک بیٹا ہوا تو توحید وتفرید کہاں رہی اور چونکہ مسلمانوں کے خدا نے قرآن میں اپنی صفت ’’لم یلد ولم یولد‘‘ بتائی ہے اور مرزاقادیانی بھی اپنے کو بظاہر مسلمان ہی کہتے ہیں۔ لہٰذا ان کو خوف ہوا کہ مسلمانوں سے پیچھا چھوڑا نامشکل پڑ جائے گا۔ لہٰذا اپنے الہام کے ساتھ بطور دفع دخل ’’انت توحیدی وتفریدی‘‘ کا دم چھلا لگانا پڑا۔ حالانکہ اب وہ بھی بدسے بدتر اور اجتماع نقیضین ہوگیا کہ بمنزلۃ کی تولید بھی اور پھر توحید وتفرید بھی۔ اب ذرا دونوں فقروں کا تسلسل اور تال میل اور تیل باتربوز ایجاد بندہ ملاحظہ فرمائیے۔ یعنی جب آپ بمنزلہ ہیں توتوحید وتفرید بمنزلہ کیوں نہیں۔ بیٹا تو بمنزلہ یعنی مجازی اور توحید وتفرید حقیقی اور اصلی۔ یا تو دوسرے فقرہ میں بمنزلہ لگائیے یا پہلے فقرہ سے بمنزلہ کو اڑائیے اور اپنے کو خدا کا صلبی بیٹا بنائیے تاکہ تعارض وتناقض اٹھ جائے۔ پھر فقرہ اولیٰ میں تو ولد صفت اور فقرۂ ثانیہ میں توحید وتفرید مصدر۔ اگر مبالغہ پر محمول کیا جائے کہ تو میری مجسم توحید وتفرید ہے تو فقرۂ اولیٰ میں بھی لفظ تولید آنا چاہئے۔ یعنی تو میری مجسم تولید ہے۔ اس صورت میں دونوں سجے چاروں چول برابر