اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کا اندازہ ہوتا ہے۔ محاورے سے مراد انگریزی میں Proverb بھی ہے اور زبان و بیان کی اپنی ادائے محاورہ کے دو معنی ہیں ایک محاورہ با معنی Proverb اور دوسرا محاورہ زبان و بیان کا سلیقہ طریقہ اور لفظوں کی Setting بھی۔ اس کے مقابلہ میں لکھنؤ والے اپنی زبان پر اور اپنے شہر کے روزمرہ اور محاورے کو سند سمجھتے تھے رجب علی بیگ سرور نے فسانہ عجائب میں میر امن کے چیلینج یا دعوے کا جواب دیا اور یہ کہا کہ لکھنؤ کی شہریت یہ ہے کہ باہر سے کوئی کیسا ہی گھامڑ اور کندۂ نا تراش آتا ہے بے وقوف جاہل اور نامہذب ہو اور ہفتوں مہینوں میں ڈھل ڈھلا کر اہلِ زبان کی طرح ہو جاتا ہے یہ گویا میرا من کے مقابلہ میں دوسرا معیار پیش کیا جاتا ہے بہرحال گفتگو محاورے اور شہر کے روزمرہ ہی کے بارے میں رہی۔ ہماری زبان میں ایک رجحان تو یہ رہا ہے اور ایک پُر قوت رجحان کے طور پر رہا کہ شہری زبان کو اور شرفاء کے محاورات کو ترجیح دی جائے اور اسی کو سندِ اعتبار خیال کیا جائے اور اِس کی کسوٹی محاورۂ اہلِ دہلی قرار پایا۔ اس سلسلہ میں ایک اور رجحان رہا جو رفتہ رفتہ پُر قوت ہوتا چلا گیا کہ زبان کو پھیلا یا جائے اور دوسری زبانوں اور علوم و فنون کے ذریعہ اس میں اضافہ کیا جاتا ہے کہ زبان سکڑ کر اور ٹھٹھر کر نہ رہ جائے شہری سطح پر امتیاز پسندی آ جاتی ہے تو وہ لوگ اپنی تہذیب کو زیادہ بہتر اور شائستہ سمجھتے ہیں ۔ اور اپنے لب و لہجہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور امتیازات کو قائم رکھتے ہیں ۔ لکھنؤ اور دہلی نے یہی کیا۔ اس کے مقابلہ میں لاہور کلکتہ اور حیدر آباد کا کردار دوسرا رہا۔ شاید اس لئے کہ وہ اپنی مرکزیت کو زیادہ اہم خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اُس پر زور نہیں دیتے تھے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے انہوں نے اضافہ سنئے اور نئی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ زمانہ بھی بدل گیا تھا نئے حالات نئے خیالات اور نئے سوالات پیدا ہو گئے تھے۔ محاورہ کی ایک جہت ادبی ہے اور ایک معاشرتی۔ یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تو اُن کی مراد صرف Proverb سے نہیں ہوتی، بلکہ اُس روز مرّہ سے ہوتی ہے۔ جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینیس (Genius) چھُپا رہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے