اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جواس علاقہ کی دین ہیں یا پھر اُس کے اثرات سے متاثر ضرور ہیں ۔ ہم یہ بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہماری ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا مرکزی ایشیاء سے وابستگی رکھنا ہے اور اِن کہانیوں کے جغرافیائی ماحول میں بھی یہ علاقہ اور ان کے جغرافیائی اور تاریخی آثار شریک ہیں ایسی صورت میں محاورہ کا کم از کم علاقائی محاورہ پران کے اثرات کا مرتب ہونا ایک فطری عمل ہے اس پر مزید کام کرنے اور بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری زبان اور اس سے وابستہ بولیوں کا سرچشمہ اور اس سے پھوٹنے والی مختلف شاخیں یا فروغ پذیر ہونے والی بولیاں علاقائی زبانوں کو متاثر بھی کرتی رہتی ہیں اور ان سے تاثر بھی لیتی رہی ہیں پنجابی یا لاہوری زبان بھی اس میں شامل ہے۔ راجستھانی بھی اِس سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے میواتی کھڑی بولی اور دہلی میں بولی جانے اور رواج پانے والی بولیوں کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور برج کے علاقہ کی برج بھاشا کی بولی کو بھی یہ تو وہ بولیاں ہیں جن سے شمال مغربی ہندوستان میں اردو بنی اور صدیوں تک متاثر ہوتی رہی۔ اس میں فارسی کو بھی ایک اہم سرکاری درباری انتظامی اور ثقافتی حیثیت سے شامل رکھئے۔ اُردو کی پرورش و پرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑ نسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کو بھی صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ان بولیوں کا اثر دکنی اُردو نے قبول کیا۔ اور دکنی اُردو کے محاورے اور لفظیات پر جو اثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثر شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آگیا اس میں تجارت پیشہ لوگوں کے آنے جانے کو بھی دخل تھا۔ اور فوجوں کے بھی تاریخ اپنے طور پر جس طرح کام کر رہی تھی اس کا عمل جو ہماری تہذیبی زندگی کو متاثر کرتا رہا اسی اعتبار سے زبانیں بھی اس کا تاثر قبول کرتی رہیں ۔ ادیبوں شاعروں اور صوفیوں کے ہاں ہم اس تاثر کو زیادہ آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں ۔