اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اپنی سوچ میں شامل کر رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گر بھی ہے زبان بھی ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت کر دی جائے تو نامناسب نہ ہو گا کہ محاورہ سادہ الفاظ میں ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے معنی لغت یا قواعد کے تابع نہیں ہوتے وہ ایک طرح کے استعارہ یا کنایہ ہوتا ہے اور بولنے والا اُسے ایک خاص معنی اور مفہوم کے ساتھ استعمال کرتا ہے عام لفظی معنی اُس کے نہیں ہوتے۔ زبان میں محاورے کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس میں کوئی ندرت یا جدّت نظر نہیں آتی لیکن محاورہ بنتا ہی اُس وقت ہے جب اُس میں استعاراتی یا علامتی اظہار شامل ہو جاتا ہے استعارہ دراصل زبان کا وجہ استعمال ہی نہیں اُسے عام رویوں عمومی لفظیات اور انداز سے قریب تر کرتا ہے اور استعمال ہی کی وجہ سے طبقہ در طبقہ اور شہر بہ شہر اور بعض صورتوں میں محلہ در محلہ کچھ امتیازات کے پہلو اُبھرتے ہیں اور استعمال ہی سے دائرہ بند زبان عوام کے درمیان پہنچتی ہے اور اپنے استعمال میں ایک انفرادیت اور اجتماعیت پیدا کرتی ہے۔ محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے اور سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی یہ عمومیت ہی زبان ادب اور لسانیت میں ایک اہم کردار ادار کرتی ہے۔ اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ یہ زبان میں تسلسل کی روایت کو قائم رکھنے میں ایک مسلسل اور خاموش کردار یہ ہے کہ ایک دور کے بعد دوسرے دور میں اور ایک دائرہ فکر و نظر کے بعد دوسرے دائرہ میں محاورہ کام کرتا ہے لغت کا بھی حصہ بنتا ہے ادب و شعر کا بھی اور تہذیب و روایت کا بھی۔ محاورہ کی تہذیبی تاریخی اور معاشرتی اہمیت پر جو گفتگو کی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے ضروری نہیں کہ کافی و شافی ہو اس میں اور بہت سے پہلو بھی ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً لسانی پہلو جس کی طرف راقمہ نے بھی اشارہ کیا ہے یا تاریخی پہلو کہ وہ بھی راقمہ کی نظر میں رہے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت ان پر کوئی تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہوئی اس کے علاوہ محاورات کا طبقاتی مطالعہ بھی ہو سکتا ہے راقمہ نے بھی موقع بہ موقع اِس کی طرف اشارے کئے ہیں ۔