اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہندوستان میں دیوی دیوتاؤں کے"پر" نہیں ہیں اسی لئے فرشتوں کے پر گننا شاید یہاں کا محاورہ بھی نہیں ۔ بعد اس کے یہ کہ فلاں آدمی تو اتنا عقلمند اور غیر معمولی طور پر لائق ہے کہ جو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے یہ اُن کے"پر" گِن لیتا ہے یہ نظر داری اور خبرداری کی بہت ہی غیر معمولی صُورت ہے مگر اس میں اظہار طنز کے طور پرکیا جاتا ہے۔ فرشتے کے"پر" کا تصور کرتے ہوئے ایک دو محاورہ اور بھی ہیں مثلاً وہاں فرشتہ پر نہیں مار سکتا یعنی اتنی پردہ داری یا پابندی اور پہرہ داری ہے کہ فرشتہ بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے۔ اسی سے ملتا جلتا یہ محاورہ بھی ہے کہ وہاں جانے میں تو فرشتوں کے پر جلتے ہیں اور غالباً اس محاورہ کی بنیاد یہ خیال ہے جو فارسی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ معراج کی شب میں جبرائیلؑ حضور اکرم ؐکے ساتھ تھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک ساتھ رہے لیکن یہاں پہنچ کر انہوں نے اپنا ساتھ اس لئے نہیں دیا کہ اس سے آگے جانا ان کے لئے سوئے ادب تھا۔ اگر یکسرے مُوئے برتر پَرم فروغ تجلی بسوزد پرم اگرمیں ایک سرِمُو بھی اور آگے بڑھوں تو تجلیات کا فروغ میرے پاؤں کو جلا دے گا یہاں صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورے اپنی بنیادی فکر کے اعتبار سے ہندوستان سے باہر کی تہذیبی فضاء اور عقائد و اعمال سے نسبت رکھتے ہیں کہ جس طرح اُردُو زبان میں الفاظ اور تصورات میں بین ایشیائی عناصر کو جمع کیا ہے اسی طرح اُن کا عکس محاورات میں بھی آتا ہے۔ نیزیہ کہ محاورہ تجربہ سے بھی پیدا ہوتا ہے ہمارے سماجی شعور سے اور تہذیبی روایتوں سے بھی اور جس طرح شعر لطیفے اور فنونِ لطیفہ کے مختلف نمونے ہیں جو ہمیں تاریخ کے مختلف مرحلوں سلسلوں اور جہتوں سے واقف کرتے ہیں ۔