اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
غلام کا لفظ انسان یا گروہِ انسانی کے لئے توہین آمیز ہے اور دوسری قوموں کی ماتحتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انسانوں کو غلام بنا کر خرید و فروخت کرنے کا رواج بھی رہا ہے اور صدیوں تک رہا ہے زر خرید غلام ہونا بھی اسی کی طرف ایک اشارہ ہے حضرت یوسف ؑ بھی غلام بنائے گئے اور مصر کے بازار میں بیچے گئے تھے غلام بنا کر رکھنا کسی شخص کو نوکروں سے بدتر درجہ دینا ہے اور یہ کہنا وہ تو ان کی مرضی کا غلام ہے اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی کوئی خواہش یا خوشی نہیں ہے۔ جس طرح مختلف اشیاء اور بھیڑ بکریوں ہاتھی گھوڑوں کے بازار لگتے تھے اسی طرح عورتوں مردوں اور بچوں کے لئے بھی بازار لگتے تھے اب یہ الگ بات ہے کہ تاریخ میں وہ وقت بھی آیا جب غلاموں نے بادشاہت کی اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہیکھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی جواہر لال نے ایک موقع پر لکھا ہے "There is none to defend slavery now a days But great Plato held that it was necessary۔ " اِس کا ترجمہ یہ ہے آج کوئی غلامی کی حمایت نہیں کرتا لیکن عظیم" افلاطون" یہ سمجھتا تھا کہ یہ ضروری ہے اسی وجہ سے ہمارے ہاں غلام غلامی اور اسی کے ساتھ کنیزوں باندیوں کے متعلق بہت محاورے موجود ہیں ۔ غلام خرید ے بھی جاتے تھے اور تحفہ کے طور پر پیش کئے جاتے تھے کنیزوں اور باندیوں کے ساتھ ساتھ بھی یہی صورت بھی"رومی تہذیب" میں تو غلاموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوتا تھا ان کی بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں ۔ انہیں وحشی جانوروں سے لڑایا جاتا تھا۔ سُولی جیسی سخت سزا بھی رومیوں ہی کی ایجاد ہے اپنے غلاموں کے ساتھ اُن کی بدسلوکی اور ظالمانہ رو یہ تاریخ کی المناک کہانیوں میں سے ہے۔