اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
چکی ہے مولانا سید احمد دہلوی کی معروف لغت آصف الغات اور نورالغات مصنفہ مولانا نورالحسن علوی کاکوروی بھی اپنے دامن میں بہت سے محاورات کو سمیٹے ہوئے ہیں ۔ راقمہ کے اس کام کو نوعیت اِس سے مختلف ہے اور وہ محاورات کی صرف جمع اور ی یا اُن کی (لغوی) سطح پر معنی نگاری نہیں ہے بلکہ اُن کی تہذیبی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ہے کہ ہمارے محاورے اپنے لفظ و معنی میں کس حد تک تہذیبی تصورات یا تصویروں کو جمع کئے ہوئے ہیں کہ یہ ایک جُدا گانہ کام ہے بلکہ محاورات کا"ایک تہذیبی مطالعہ" ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری معاشرتی فکر اور تہذیبی تقاضوں کی طرح عکاسی کرتے ہیں ۔ راقمہ سُطور نے اِسی نقطہ نظر سے محاورے کے مطالعہ اور اُن کے پیش کش کا یہ منصوبہ اپنے سامنے رکھا ہے اور اس پر اپنی محدود نظر کے مطابق محاورات کو جمع کرنے کے علاوہ اُن پر تنقیدی اور تہذیبی گفتگو کی ہے محاورات کو حروفِ تہجی کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور اِس ضمن میں نسبتاً اہم محاورات ہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور اِس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس محاورہ سے ہمارے ذہن زندگی اور زمانہ کا کیا رشتہ ہے۔ ہم اپنے معاشرتی رویوں کو اس لئے بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ جن جن مرحلوں سے گزری ہے اور جن معاشرتی آداب و رسوم نے ہمارے طبقاتی معاشرے علاقائی سطح پر بننے بگڑنے والے سماج کو متاثر کیا ہے۔ اُن کی ایک متحرک تصویر سامنے آتی ہے۔ راقمہ الحروف کے سامنے اُردو کا وہ لغت خاص طور پر رہا ہے جو محاورات پر مشتمل ہے۔ اور جسے چرنجی لال نے ترتیب دیا ہے اِس کام نام مخزن المحاورات ہے۔ چرنجی لال نے25 مئی 1886ء میں منشی بُلاتی داس دہلوی کے مطبع سے شائع کیا۔ اِس کے کاتب کا نام سید عبد اللطیف اور اُس کے ساتھ ساکن سبز منڈی بیرونِ شہر لکھا ہوا ہے۔ اِس کے بعد غلط نامہ کے صفحات آئے ہیں جن کا سلسلۂ تحریر و نگارش سات سوا کسٹھ صفحہ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد تمام شد تحریر ہے۔ اِس کے ذیل میں قطعہ