اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
چوڑیوں کے ساتھ ہمارے محاورے بھی وابستہ ہیں مثلاً چوڑیاں بجنا، چوڑیاں پہنانا، چوڑیاں پہننا، اس کے علاوہ چوڑیاں بڑھانا، چوڑیاں ٹھنڈی کرنا۔ چوڑیاں اُتارنا، چوڑیاں توڑنا، اور اِن سب محاوروں کا رشتہ ہماری تہذیبی اور سماجی زندگی سے ہے۔ مثلاً چوڑیاں بجنا سہاگ کی اپنی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ چوڑیاں پہنانا شادی کرنے کی ایک رسم بھی ہے۔ جس طرح چادر ڈالنا ایک رسم ہے اسی طرح چوڑیاں پہنانا ہے یعنی جس کے نام سے جو چوڑیاں پہنائی جائیں گی لڑکیاں یا عورتیں اُس کی دولہن یا بیوی بن جائیں گی۔ چوڑیاں پہننا اسی نسبت سے بیوی بننے کے لئے کہا جاتا ہے۔ تم چوڑیاں پہن کر بیٹھ جاؤ یہ مردوں کے لئے طعنے کے طور پر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ چوڑیاں پہننا عورتوں کا کام ہے مرد اگر چوڑیاں پہنتا ہے تو اُس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بزدلی کا ثبوت دیتا ہے۔ اسی لئے ایک اور محاورہ بھی ہے کہ"بنگا" پہنا دوں گی گاؤں والے چوڑی بنگڑی کہتے ہیں ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ تجھے چوڑیاں پہنا دوں گی بُزدل اور شکست خوردہ بنا دوں گی وغیرہ۔ اب اِن محاوروں کے مقابلے میں چوڑیاں بڑھانا یا ٹھنڈی کرنا بیوہ ہو جانے کی ایک علامت ہے۔ جب کوئی عورت سہاگن نہیں رہتی تو اُس کی چوڑیاں اُتار دی جاتی ہیں تو اُس کو چوڑیاں بڑھانا کہتے ہیں اور اگر کانچ کی چوڑیاں توڑ دی جائیں تو اِس عمل کو چوڑیاں ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں ۔ جب چراغ اور شمع کو بجھایا جاتا ہے تو اُسے بھی چراغ ٹھنڈا کرنا یا شمع ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں ۔ بیخود دہلوی کا شعر ہے۔ مجھکو ہے بیخود نہ سمجھ خوب سمجھتا ہوں تجھےشمع میرے ہی جلانے کوتو ٹھنڈی کر دی (بیخود دہلوی) اِس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ محاورہ ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کس کس طرح ترجمانی کرتا ہے۔