کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
تَشْتَہِیْ اور تَدَّعُوْنَ میں فرق علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: بَیْنَہُمَا عُمُوْمٌ وَّ خُصُوْصٌ مِنْ وَجْہٍ إِذْ قَدْ یَشْتَہِی الْمَرْءُ مَا لَا یَطْلُبُہٗ کَالْمَرِیْضِ یَشْتَہِیْ مَا یَضُرُّہٗ وَلَا یُرِیْدُہٗ؎ یعنی ان دونوں کے درمیان میں عموم و خصوص من وجہٍ کی نسبت ہے۔ کبھی آدمی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے لیکن طلب نہیں کرتا ہے۔ جیسے کہ مریض خواہش کرتا ہے اس چیز کی جو اس کو نقصان پہنچاتی ہے لیکن طلب نہیں کرتا ہے۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جنت میں طلب اضطراری ہو یا اختیاری دونوں علی السواء پوری ہوں گی۔ یعنی قلب کی خواہش پوری ہوگی اور زبان سے درخواست والی خواہش بھی پوری ہوگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے: عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّکَ لَتَنْظُرُ إِلَی الطَّیْرِ فِی الْجَنَّۃِ فَتَشْتَہِیْہِ فَیَخِرُّ بَیْنَ یَدَیْکَ مَشْوِیًّا؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں اگر کسی پرندہ کو اُڑتے ہوئے دیکھوگے اور تمہارا جی چاہتا ہے کہ اس کو کھالوں تو فوراً تمہارے سامنے بھنا ہوا اور گرما گرم گر جائے گا۔ دوسری حدیث میں ہے: عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ ------------------------------