کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اہلِ علم کی مقبولیت کی علامت اہلِ علم کی مقبولیت کی علامت ان حضرات کی خشیت اور عبدیت اور فنائیت ہے۔ اور تکبر، پندار، تحقیرالناس، احساسِ برتری، جاہ اور مال طلبی، اہل اللہ کی دعاؤں اور صحبتوں سے اعراض اور استغنا علامت قساوِت قلبی ہے ؎ اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد مرعسس رادید و درخانہ نہ شد حقیقت یہ ہے کہ نور علم کا صحبتِ اہل اللہ کی برکتوں سے نکھرتا ہے کیوں کہ عطر لگانے والے کے کپڑوں میں اگر پاخانہ لگادیا جاوے تو پاخانہ کی بدبو سے عطر کی خوشبو مغلوب ہوجاوے گی۔ پس اہل اللہ کی صحبتوں سے تکبر و پندار و عجب جیسے تمام رذائل کا جب تزکیہ ہوجاتا ہے، پھر علم کی خوشبو خود اس عالم کو بھی مست کرتی ہے اور اس کے پاس جو بیٹھتے ہیں ان کو بھی مست کرتی ہے۔ صحبتِ اہل اللہ سے علم کا نور نفس کے اندھیروں کے بادلوں سے نجات پاجاتا ہے ؎ نکھرتا آرہا ہے رنگِ گلشن خس و خاشاک جلتے جارہے ہیں مولانا گنگوہی، مولانا نانوتوی، مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے اپنے علوم میں جو برکتیں محسوس فرمائی تھیں ان کا ذکر ان حضرات نے اپنی کتابوں میں جگہ جگہ فرمایا ہے۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے علمِ دین کی جو مٹھائیاں کتابوں میں پڑھی تھیں جب حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی تو وہاں کھانے کو ملیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے خوب فرمایا ؎ قال را بگذار مردِ حال شو پیشِ مردِ کاملے پامال شو