کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
مبارک اونٹنی کے کجاوہ کی لکڑی سے لگ جاتی ہے۔ (رواہ ابن اسحاق مرسلًا) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبدیت کاملہ کے زاویہ قائمہ کو ایک اعشاریہ بھی متزلزل نہیں ہونے دیا۔ اس وقت خادم اور خادم زادہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن سب تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہے تھے، لیکن آپ تواضع سے سر جھکائے ہوئے تھے۔؎ جیسا کہ ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ ہم نے تاریخ میں کسی فاتح حکمران کو اس تواضع کی شان سے مفتوحہ علاقہ میں داخل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جیسا مسلمانوں کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر مکہ میں جس نے کس بے رحمی سے آپ کو ہجرت پر مجبور کیا تھا اور جو لوگ آپ کے خون کے پیاسے تھے، ان پر حکمرانی کے لیے فاتحانہ داخل ہوتے وقت انتہائی تواضع کے ساتھ داخل ہوئے۔ یہ ادا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالِ عبدیت کو واضح کرتی ہے۔ پھر اہلِ مکہ کے ساتھ آپ نے کیا سلوک کیا وہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اہلِ قریش! آج میں وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا کہلَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَآج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں۔ اِذْہَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ؎جاؤ! تم سب آزاد ہو۔ یہ ہے کارنامۂ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم۔ یَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِمٖتیئس سالہ دورِ نبوت کی جامع دُعا حضرت ابواُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ------------------------------