کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
وَالْمَسْئَلَۃُ الثَّانِیَۃُ جَوَازُ تَمَنِّی الْمَوْتِ اِشْتِیَاقًاإِلٰی لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی عَلٰی تَفْسِیْرِ بَعْضِہِمْ؎ موت کی تمنا کا جائز ہونا بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے شوق میں ہو۔سالکین کے لیے ایک تنبیہ بعض سالکین اللہ تعالیٰ کے انعاماتِ ظاہرہ و باطنہ کو اپنے مجاہدات کا ثمرہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بڑے مجاہدے کیے ہیں تب یہ نعمت ملی ہے، لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ’’بیان القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: فَإِنَّ بَعْضَ الْمُغْتَرِّیْنَ الْمُعْجِبِیْنَ یُنْسِبُوْنَ کَمَالَاتِہِمْ إِلٰی مُجَاہَدَاتِہِمْ وَہُوَ عَیْنُ الْکُفْرَانِ ؎ پس بعض بے عقل صوفی لوگ عُجب اور خود بینی میں مبتلا ہوکر حق تعالیٰ شانہٗ کی عطایا کو اپنے مجاہدات اور اعمال کی طرف منسوب کرتے ہیں، جو سخت ناشکری اور کفران ہے۔ایک اشکال اور اس کا جواب کوئی کہے کہ حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تو اپنے اشعار میں اس طرح فرمایا ہے ؎ مے یہ ملی نہیں ہے یوں قلب و جگر ہوئے ہیں خوں کیوں میں کسی کو مفت دوں مے مری مفت کی نہیں تو اس شعر کے اندر یہ بتایا گیا ہے کہ نسبت اور دولتِ باطنی تعلق مع اللہ کے اہتمام، تقویٰ اور مجاہدات سے ملتی ہے اور اہل اللہ کے ناز اُٹھانے سے ملتی ہے، جو اہلِ محبت ہی برداشت کرسکتے ہیں ؎ ------------------------------