کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
رِضَا جَنَابِیْ وَجَزَاءِ ثَوَابِیْ، قَالَ الطَّیْبِیُّ:وَخَصَّ الْجَلَالَ بِالذِّکْرِ لِدَلَا لَتِہٖ عَلَی الْہَیْبَۃِ وَالسَّطْوَۃِ أَیْ الْمُنَزَّہُوْنَ عَنْ شَائِبَۃِ الْہَوٰی وَالنَّفْسِ وَالشَّیْطَانِ فِی الْمَحَبَّۃِ فَلَا یَتَحَابُّوْنَ إِلَّا لِأَجْلِیْ وَلِوَجْہِیْاور ممکن ہے کہ ’’جلالی‘‘ کے ساتھ جمالی مقدر ہو اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ أَیْ اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِیْ حَالَۃِ الْقَبْضِ وَالْبَسْطِ وَالْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ وَالْمِحْنَۃِ والْمَنْحَۃِ فَیُفِیْدُ دَوَامَ تَحَابُبِہِمْ؎یہ محبت میری عظمت کے سبب ہوتی ہے اور میری رضا کے لیے، اور لفظ جلال کا خاص کرنا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور عظمت سے یہ محبت ہے اور نفسانی آمیزش اور شیطانی سازش سے یہ محبت پاک ہے۔ یہ محبت صرف رضائے حق کے لیے ہے۔ یا’’بِجَلَالِیْ‘‘کے لفظ کے ساتھ جمالی کا لفظ بھی مقدر اور محذوف ہے۔ (عَلٰی سَبِیْلِ الْاِکْتِفَاءِ وَالتَّقْدِیْرِ) پس مطلب یہ ہوگا کہ ان کی یہ محبت ہر حال میں ہے خواہ قبض ہو یا بسط ہو، خوف و رجاء ہو یا تکلیف ہو یا نعمت ہو، ہر حال میں یہ اللہ والی محبت قائم رہتی ہے۔ یعنی ظہورِ صفت جلال میں بھی اور ظہورِ صفت جمال میں بھی ۔اہل اللہ کی صحبت کا ایک عظیم الشان انعام ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا اور بالخصوص جہاں کوئی خونی رشتہ بھی نہ ہو اور نہ وہاں مال ملنے کی توقع ہو، خالص اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں مجلس ہو (جو اللہ والوں کے یہاں کامل درجہ میں نظر آتی ہے) اس کا ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ ایسی مجلسوں میں اللہ تعالیٰ کی شان اجتباء یعنی شانِ جذب کا ظہور ہوتا ہے جس سے بندہ جلد اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقبول بن جاتا ہے۔ جیسا کہ روایت ہے : إِنَّ لِرَبِّکُمْ فِیْ أَیَّامِ دَھْرِکُمْ نَفَحَاتٍ فَتَعَرَّضُوْا لَہٗ... الٰخ؎ ------------------------------