کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہونے کے سبب ان کے ترک تحفظ کو القائے اختیاری سے تعبیر کیا گیا۔ بقاعدہ مشہورہ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تین سال بڑے تھے، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام مرتبہ میں بڑے تھے کیوں کہ ان کی رسالت اور ریاست مستقلاً تھی اور یہ وزیر تھے اور بہت ہی نرم اور حلیم الطبع تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بال پکڑ کر کھینچنے میں قصد اہانت اور استخفاف کا نہ تھا۔ مسائل السلوک میں تفسیر مذکورہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔مسائل السلوک میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے نادان لوگ بعض اہل اللہ کی دینی شدت، غضب اور فرطِ حمیت کو سوئے اخلاق سے تعبیر کرتے ہیں۔ حَاشَا ہُمْ عَنْ ذَالِک اور وہ پاک ہیں اس الزام سے۔ اور اسی واقعہ سے شیخ کے غضب کا جواز مرید پر ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کاملین سے اجتہادی خطا کا صدور منافی کمال نہیں۔ اور ان جاہل مریدوں کی بداعتقادی بھی ثابت ہوئی جو اپنے پیروں کو خطاؤں سے معصوم سمجھتے ہیں۔؎اہل اللہ اور اہلِ نفس کے غضب میں فرق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی کا عذر قبول فرمایا اور فوراً دعا کی: رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ ز وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ؎ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی خطائے اجتہادی کی مغفرت کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا بھی مانگی تاکہ اپنے بھائی کا دل خوش کردیں اور دُشمنوں کی شماتت اور طعن کو رفع کردیں۔؎ ------------------------------