کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
بخاری شریفبَابُ الشُّرُوْطِ فِی الرُّقْیَۃِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِمیں یہ حدیث اس طرح ہے: إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَابُ اللہِ؎ فائدہ: حفظ و ناظرہ قرآن پاک کے اساتذہ کرام کی تنخواہوں میں برکت کی وجہ آج اس حدیثِ مذکور سے سمجھ میں آئی۔علمائے بے عمل کا وعظ کہنا جائز ہے اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ؎ کیا غضب ہے کہ کہتے ہو لوگوں کو نیک کام کرنے کو اور خود اپنی خبر نہیں لیتے! اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ عالم بے عمل کا واعظ بننا جائز نہیں، تو یہ غلط ہے۔ اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بے عمل بننا جائز نہیں۔ دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔؎ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ؎ اے ایمان والو! ایسی بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اس آیت سے بھی بعض لوگ یہی سمجھے کہ بے عمل کو وعظ نہ کہنا چاہیے، حالاں کہ یہاں مراد یہ ہے کہ لاف زنی اور دعویٰ اپنے کمالِ اعمال پر مت کرو۔ وعظ بلاعمل اس آیت کے مفہوم سے خارج ہے جیساکہ سبب نزولِ آیت سے ظاہر ہے۔ مسائل السلوک:فِیْہِ ذَمٌّ لِدَعْوَی الْأَعْمَالِ وَالْکَمَالِ، وَلَیْسَ مَعْنَاہُ الْوَعْظُ بِمَا لَمْ یَتَّعِظْ بِہٖ وَیَدُلُّ عَلٰی مَا ذَکَرْتُہٗ، سَبَبُ النُّزُوْلِ أَیْضًا۔ اس میں اعمال اور کمال کے دعویٰ کی مذمت ہے۔؎ ------------------------------