کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
مؤمن کی استقامت پر انعاماتِ الٰہیہ (قرآنِ مجید کی روشنی میں) از افادات عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم ترتیب و تحریر:محمد اسماعیل (فرانسیسی، ری یونین) فاضل جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، ضلع سورت (ہند) اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا؎ جن لوگوں نے دل سے اقرار کرلیا کہ ہمارا ربّ حقیقی صرف اللہ ہے، پھر اس پر مستقیم رہے۔ اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کفا رکی بدحالی و بدمآلی کا ذکر فرمایا۔ اب اس آیت میں مؤمنین کا حسن مآل و حسنِ حال کا ذکر فرمایا۔ اور پھر اخلاق و اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی جس سے ان کی خوشحالی و نیک مآلی میں ترقی ہو۔ میرے استاذ محترم حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جملہ کو جملہ اسمیہ سے فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جملہ اسمیہ دوام پر دلالت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی میں اشارہ فرمایا کہ مؤمنین کی شان یہ ہے کہ اس جملہ کو کہنے کے بعد اس پر قائم و دائم رہیں۔ یعنی اسلوبِ بیان کی بلاغت میں ترغیبِ استقامت موجود ہے۔ اِسْتَقَامُوْا کی تفسیر: علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ استقامت سے مراد اَ لْاِعْتِدَالُ وَعَدْمُ الزَّیْغِ وَالْاِنْحِرَافِ عَنِ الْحَقِّ؎ یعنی میانہ روی اختیار کرنا اور حق سے انحراف نہ ہو خواہ اعتقاد میں یا اخلاق میں یا اعمال میں۔ اسی وجہ سے حق کے راستہ کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں کہ وہ ایسا راستہ ہے جو ------------------------------