کشکول معرفت |
س کتاب ک |
اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق اور ذکر اللہ کا نفع کامل حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذوق پیدا ہوتا ہے اہل اللہ کی صحبت اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے سے جو کہ اعتقاد اور انقیاد کے ساتھ ہو کیوں کہ یہا ںمحض تقلید سے کام چلتا ہے۔ چوں و چرا سے کام نہیں چلتا ؎ فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ جز شکستہ می نہ گیرد فضلِ شاہ جیسے کوئی بچہ استاد کے سامنے الف، ب لے کر بیٹھے اور استاد کہے کہو ’’الف‘‘ اور کہو ’’ب‘‘ اور بچہ کہنے لگے کہ ’’الف‘‘ کی صورت ایسی کیوں ہوئی اور ’’ب‘‘ کی ایسی کیوں ہے۔ تو استاد اس سے کہے گا کہ تو اپنے گھر کا راستہ لے۔ بات یہ ہے کہ ابتدا ہر امر کی تقلید محض ہے۔؎ اور ارشاد فرمایا کہ بدون صحبتِ شیخ کے اگر کوئی لاکھ تسبیحیں پڑھتا رہے کچھ نفع نہیں۔ حضرت خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! خود ذکر اللہ میں یہ صفت ہونی چاہیے تھی کہ وہ خود کافی ہوجایا کرتا، صحبتِ شیخ کی کیوں قید ہے؟ فرمایا کہ کام بنائے گا تو ذکر اللہ ہی بنائے گا لیکن عادت اللہ یوں جاری ہے کہ بدون شیخ کی صحبت کے نرا ذکر کام بنانے کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے صحبتِ شیخ شرط ہے، جس طرح کاٹ جب کرے گی تلوار ہی کرے گی لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کسی کے قبضہ میں ہو ورنہ اکیلی تلوار کچھ نہیں کرسکتی گو کاٹ جب ہوگا تلوار ہی سے ہوگا۔؎ شیخ کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ جس طرح مقوی غذا دودھ اور حلوہ وغیرہ ایسے معدہ میں جس میں صفرا بھرا ہو اور قے ہورہی ہو مضر ہوتی ہے اور یہ غذا خلط فاسد سابق کی طرف مستحیل ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں طبیب پہلے مسہل دے کر معدہ کا مادّۂ فاسدہ سے تنقیہ کرتا ہے، اس کے بعد پھر خمیرہ اور بادام تجویز کرتا ہے۔ اسی طرح ------------------------------