کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
مجاہدہ کا مفہوم اور اس کے ثمرات قرآنِ پاک کی روشنی میں از افادات: استاذی المحترم حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ ٗ مرتبہ: اسماعیل فرانسیسی وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ؎ اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے قرب و ثواب (یعنی جنت) کے راستے ضرور دکھائیں گے جس سے وہ جنت میں جا پہنچیں گے۔ مجاہدہ کی تحقیق:مجاہدہ جہد سے مأخوذ ہے جس کا معنیٰ ہے کوشش کرنا اور اپنی طاقت کو خرچ کرنا۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مجاہدہ کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ ترکِ معاصی اور تقلیلِ مباحات۔ خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ پہنچنے میں ہوگی جو بے حد مشقت تو راحت بھی کیا انتہائی نہ ہوگیوَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْاکی تفسیر اَلْمُرَادُ بِہِ الَّذِیْنَ بَذَلُوْا وُسْعَہُمْ وَطَاقَتَہُمْ فِیْ مُحَارَبَۃِ الْکُفَّارِ وَمُخَالَفَۃِ النَّفْسِ وَالْہَوٰی؎ یعنی وہ لوگ ہیں جو اپنی کوشش اور طاقت کو کفار اور نفس اور خواہشاتِ غیرشرعیہ کی مخالفت میں خرچ کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کی دو قسم ہیں۔ ایک قسم کفار کے ساتھ جہاد کرنا اور دوسری قسم اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا۔ ------------------------------