کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حضرت آدم علیہ السلام کے لائق فرزند تُوْبُوْا اور اِسْتَغْفِرُوْا کا حکم بتاتا ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی۔ یعنی اگر تم گندگی کے گٹر میں گرپڑو تو پڑے نہ رہنا، ہماری دوری پر صبر نہ کرنا، جلدی استغفار اور توبہ سے ہماری حضوری حاصل کرلینا۔ ایک بزرگ کا شعر ہے ؎ ہم نے طے کیں اس طرح سے منزلیں گر پڑے گر کر اُٹھے اُٹھ کر چلے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍکی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں۔ اہلِ عرب تَلَقّٰی وہاں بولتے تھے جب کوئی مہمان بہت دن کے بعد آتا تھا۔ مِنِ اسْتِقْبَالِ النَّاسِ بَعْضِ الْأَحِبَّۃِ إِذَا جَاءَ بَعْدَ طُوْلِ الْغَیْبَۃِ، وَفِیْہِ إِیْمَاءٌ أَنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَا مُ کَانَ فِیْ ذَالِکَ الْوَقْتِ فِیْ مَقَامِ الْبُعْدِ۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا:اَلْمُرَادُ بِکَلِمَاتٍ ’’رَبَّنَاۤ ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا... الٰخ؎ پس رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا کی دعا دوری کی کلفت سے نجات اور حصولِ حضوری کے لیے نہایت مجرب ہے اور ہمارے بابا کے ذریعے ہم سب کو ملی ہے۔ جس دعا سے کام بابا کا بنا ہے اسی سے ان کے بیٹوں کا بنے گا۔ کیا خوب مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ؎ آنکہ فرزندانِ خاص آدم اند نفحۂ اِنَّا ظَلَمْنَا می زنند جو لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے لائق بیٹے ہیں جب ان سے کوتاہی اور خطا صادر ہوتی ہے تو وہ اپنے بابا کی طرح رَبَّنَا ظَلَمْنَا کی صدا لگاتے ہیں۔ دوری کو حضوری سے اور بُعد کو قُرب سے تبدیل کرنے میں اس سے بہتر کوئی وظیفہ نہیں، کیوں کہ وحی الٰہی سے یہ سرکاری وظیفہ ملا ہوا ہے۔ ------------------------------