کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
دلالت یہ ہے کہ اپنا حال غیرشیخ سے نہ کہے کہ اس میں ضرر کا احتمال ہے۔؎متقی عالم کا اپنے اوصاف انتفاعِ طالبین کے لیے بیان کرنا قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرۡزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ؎ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کھانا تمہارے پاس آتا ہے جو کہ تم کو کھانے کے لیے ملتا ہے، اس کے آنے سے قبل اس کی حقیقت تم کو بتلادیا کرتا ہوں۔ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ یہ بتلا دینا اس علم کی بدولت ہے جو مجھ کو میرے ربّ نے تعلیم فرمایا ہے۔ روح المعانی میں ہے کہ إِنْ وَصَفَ الْعَالِمُ نَفْسَہٗ لِیُنْتَفَعَ بِہٖ لَا یَحْرُمُ، وَلَا یُعَدُّ ذٰلِکَ مِنَ التَّزْ کِیَۃِ الْمَحْظُوْرِاگر کوئی عالم اپنے اوصاف اس لیے بیان کرے کہ لوگ اس سے نفع حاصل کریں تو جائز ہے اور یہ تزکیۂ ممنوعہ میں داخل نہیں۔؎ احقر عرض کرتا ہے کہ تزکیۂ ممنوعہ فَلَا تُزَکُّوْۤا اَنْفُسَکُمْہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو پاک مت کہو۔ جہاں تزکیہ کا حکم ہے وہاں مطلب ہے کہ اپنے نفس کا تزکیہ کرو اور جہاں نفی ہے وہاں مراد نسبت الی المأخذ سے منع کرنا ہے۔ پس پاک کردن تو فرض ہے اور پاک گفتن حرام ہےیعنی اپنے نفس کی اصلاح تو فرض ہے مگر اپنے کو اصلاح یافتہ اور پاک سمجھنا حرام ہے۔ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْکَیْلَ وَاَنَا خَیْرُالْمُنْزِلِیْنَ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں سب سے زیادہ مہمان نوازی کرتا ہوں۔فِیْہِ أَنَّ إِظْہَارَ حُسْنِ مُعَامَلَتِہٖ إِذَا کَانَ فِیْہِ مَصْلَحَۃٌ وَلَا یُرَادُ بِہِ التَّمَدُّحُ لَا یُنَافِی التَّوَاضُعَاس میں دلالت ہے کہ اپنی خوش معاملگی کا اظہار اگر اس سے اپنی مدح مقصود نہ ہو بلکہ اس میں ------------------------------