کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غضب چوں کہ لِلہ تھا، اس کی مثال سکر من المباح کی سی ہے جس میں مکلف نہیں رہتا۔ اس پر دوسرے شخص کے غصہ کو جو نفس کے واسطے ہو قیاس نہیں کرسکتے، بلکہ اس کی حالت سکر من المحرم کی سی ہے کہ جس کو شارع نے عذر نہیں قرار دیا۔ چناں چہ وقوعِ طلاق وغیرہ کا حکم معلوم ہے۔ نیز عادتاً ممکن ہے کہ شدتِ مشغولی میں ذہول ہوگیا ہو کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے اور بھائی کو دار و گیر کرنے کے لیے ہاتھ خالی کرنا ہوا۔ حکایت:ایک صاحب کو غصہ کی بیماری تھی۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو لکھنؤ انوار بک ڈپو کے مولوی محمد حسن کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھنے کا مشورہ دیا۔ چند دن بیٹھنے سے ان کا غصہ کم ہونے لگا، یہاں تک کہ معتدل ہوگیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب نے تو مجھے غصہ کے متعلق کبھی کوئی نصیحت نہیں کی، پھر مجھے ایسا نفع کیوں ہوا؟ حضرت نے فرمایا کہ موصوف میں شانِ حلم غالب ہے، صحبت سے ان کا حلم آپ کے اندر آہستہ آہستہ منتقل ہوگیا۔ حکایت:ایک دن حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک ملازم کو ڈانٹ رہے تھے۔ ملازم نے عرض کیا کہ معاف کردیجیے۔ شیخ نے فرمایا کہ تم تو بار بار غلطی کرتے ہو، میں تمہارا کتنا بھگتوں؟ مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ کے چچا پاس بیٹھے ہوئے تھے، فرمایا کہ مولانا! اس کا اتنا بھگت لیجیے جتنا اپنے اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن بھگتوانا ہے۔نسخۂ اکسیرِ غضب از: حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم حسب ذیل اُمور کو دن میں متعدد بار پڑھیں،اتناکہ غصہ کے وقت یاد رہیں: ۱) پوری اعوذ باللہ پڑھنا۔ ۲) وضو کرلینا۔