کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ ؎ اِتمامِ نور سے مراد تفسیر میں آخرت کا نور ہے کہ اے اللہ! اس نور کو آخر تک قائم رکھیے کہ راستے میں گل نہ ہوجاوے، بطور اشارہ اِتمامِ نور سے نسبت مع اللہ کا القا بھی ہے۔ (ایسا شخص مکمل لنفسہٖ مکمل لغیرہٖ ہوتا ہے) حضرت خواجہ صاحب کی یہ تحریر احقر نے خود دیکھی ہے۔انقطاعِ خلق اورتعلق مع اللہ سے کیا مراد ہے؟ بعض نادان صوفیا وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًاسے یہ سمجھ گئے کہ ضروری تعلقاتِ دنیویہ سے بھی الگ ہوکر رہبانیت اختیار کرلی جاوے۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں اس آیت کی نہایت حکیمانہ تفسیر فرمائی ہے: ’’اور علاقۂ خداوندی کو تمام تعلقات پر غالب رکھیے۔‘‘ کیا ہی عمدہ تعبیر ہے! احقر کا یہ شعر بھی اس مفہوم کا ترجمان ہے ؎ دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ باخدا رہے یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جُدا رہےہجرانِ جمیل اور صبرِجمیل اَلصَّبْرُ الْجَمِیْلُ الَّذِیْ لَاشَکْوٰی فِیْہِ؎ یعنی صبرجمیل وہ صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو۔ اور مراد اس شکایت سے یہ ہے کہ مخلوق سے شکایت نہ کرے۔ پس حق تعالیٰ سے شکایت اپنی تکلیف کی پیش کرنا منافی صبر جمیل نہیں۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے عرض کیا تھا اِنَّمَاۤ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْۤ اِلَی اللہِ؎ اور ہجرانِ جمیل یہ ہے کہ اس کی شکایت اور انتقام کی فکر میں نہ پڑے۔ ------------------------------