کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حکایت حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ایک بار حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ساری رات کعبۃ اللہ میں یہ شعر سجدہ کی حالت میں پڑھتے رہے اور روتے رہے۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی ؎ اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن گر بدم من سرِّ من پیدا مکن اے خدا! اس بندے کو رسوا نہ فرمائیے، اگرچہ میں بُرا ہوں مگر میری بُرائیوں کو آپ اپنی مخلوق پر ظاہر نہ فرمائیے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حالت تھی کہ اپنے ہر ہر خادم کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ آنے والوں کے قدموں کی زیارت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ حضرت پر شانِ عبدیت کا ہر وقت غلبہ رہتا تھا۔ارشاداتِ حضرت حکیم الامت فرمایا کہ بندہ جب تک زندہ ہے جب تک تو شان بنانی ہی نہیں چاہیے۔ کیا خبر کیا حالت ہونے والی ہے۔ ہاں جب دنیا سے صحیح و سالم ایمان لے کر نکل جاوے پھر اینٹھے جتنا چاہے۔ بندے وہ تھے جیسے مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر چار حروف جاننے کی تہمت نہ ہوتی اور اس سے لوگ نہ جان گئے ہوتے تو ایسا گم ہوتا کہ کوئی یہ بھی نہ پہچانتا کہ قاسم دنیا میں بھی پیدا ہوا تھا۔ اور ارشاد فرمایا کہ جو عالم اپنے علم پر عمل نہ کرے اور مُحبِّ دنیا ہو وہ جاہل ہے کوئی بھی ہو۔ اور فرمایا کہ مجھے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ نہ جانے اشرف علی کا قیامت کے دن کیا حال ہوگا۔