کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہے کہ ہر مخلوق کے اسم اور مسمّٰی میں فاصلے ممکن ہیں۔ مثلاً ایک باپ اپنے بیٹے کا محبت سے نام لیتا ہے، لیکن اس کا بیٹا باپ سے ہزاروں میل دور ہوسکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کی یہ عجیب شان ہے کہ جہاں بھی ان کا نام لیا جاتا ہے وہاں ان کا مسمّٰی بھی موجود ہوتا ہے۔ وہ ایسے محبوبِِ حقیقی ہیں کہ جن کے اسم اور مسمّٰی میں فاصلے نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اللہ اللہ ذکر پاک نام دوست اسمِ اعظم از برائے قربِ اوست یعنی اسمِ ذات کا ذکر اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے اسمِ اعظم ہے ؎ اللہ اللہ گو بِرَ و تا سقف عرش اللہ اللہ کہتے جاؤ اور صاحبِ عرش سے رابطہ قائم کرتے جاؤ۔کثرتِ ذکر پر وعدۂ فلاح وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ؎ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔ صاحب جلالین نے تُفْلِحُوْنَ کی تفسیر تَفُوْزُوْنَ سے کی ہے یعنی ذکر کی برکت سے دونوں جہاں میں کامیاب ہوجاؤگے۔ علامہ ابوزکریا محی الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں فلاح کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: لَیْسَ فِیْ کَلَامِ الْعَرَبِ کَلِمَۃٌ مُفْرَدَۃٌ کَالنَّصِیْحَۃِ وَ ا لْفَلَاحِ نصیحت اور فلاح جیسا جامع لفظ کلامِ عرب میں موجود نہیں۔ اور فلاح کا مضمون بیان فرماتے ہیں کہ اَلْمُرَادُ بِالْفَلَاحِ جَمِیْعُ خَیْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ؎ لفظ فلاح سے دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں مراد ہیں۔ ------------------------------