کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا قُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌسے مراد وہ ہے جو چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے، شراب پیتا ہے اور باوجود ان معاصی کے وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، لیکن یہ وہ شخص ہے جو روزہ رکھتا ہے، صدقہ کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اس کے باوجود ڈرتا رہتا ہے کہ نہ معلوم قبول بھی ہے یا نہیں؟ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَیہ آیت ان کے خوف کی تعلیل ہے۔ أَیْ لِأَنَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَکیوں کہ اپنے رب کے پاس جانا ہے، نہ معلوم کیا فیصلہ ہو؟اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں صیغہ جمع متکلم کی حکمت اِیَّاکَ نَعْبُدُ اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں جمع کا صیغہ ہے جبکہ ہر شخص تنہا بھی نماز پڑھتا ہے تو بھینَعْبُدُ کہتا ہے، حالاں کہ اس کو اس وقت اَعْبُدُ کہنا چاہیے۔ اس کی عجیب حکمت تفسیر روح المعانی میں بیان فرمائی گئی ہے۔قَوْلُہٗ: نَعْبُدُ دُوْنَ اَعْبُدُ فَقَدْ قِیْلَ ہُوَ الْاِشَارَۃُ إِلٰی حَالِ الْعَبْدِ کَأَنَّہٗ یَقُوْلُ:اِلٰہِیْ مَا بَلَغَتْ عِبَادَتِیْ إِلٰی حَیْثُ أَذْکُرُہَا وَحْدَہَا لِأَنَّہَا مَمْزُوْجَۃٌ بِالتَّقْصِیْرِ وَلٰکِنْ أَخْلِطَہَا بِعِبَادَۃِ جَمِیْعِ الْعَابِدِیْنَ،وَأَذْکُرُ الْکُلَّ بِعِبَارَۃٍ وَّاحِدَۃٍ حَتّٰی لَا یَلْزَمَ تَفْرِیْقُ الصَّفَقَۃِ ؎ نَعْبُدُ کے بجائے اَعْبُدُ کی حکمت یہ ہے کہ گویا بندہ یہ اقرار کررہا ہے کہ اے خدا! میری تنہا عبادت اس قابل نہیں کہ میں تنہا اس کو آپ کے حضور میں پیش کروں، کیوں کہ ہماری عبادت کوتاہیوں سے ملی ہوئی ہے، لیکن ہم جمع کے صیغے سے پیش کررہے ہیں۔ یعنی ہم اپنی عبادت کو جملہ صالحین کی عبادت کے ساتھ مخلوط کرکے پیش کررہے ہیں، تاکہ صفقہ میں تفریق نہ ہواور ان صالحین کی برکت سے ہماری عبادت بھی قبول ہوجاوے۔ (تھوک بھاؤ قبول ہوجاوے۔) ------------------------------