کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
شیخ کو عارف ہونا چاہیے قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ ؎ بحوالہ روح المعانی حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ داعی الی اللہ کو طریقِ ایصال کا ماہر ہونا چاہیے اور حق تعالیٰ کی ذات و صفات کا عارف ہونا چاہیے فِی الرُّوْحِ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنَّہٗ یَنْبَغِیْ لِلدَّاعِیْ إِلَی اللہِ تَعَالٰی أَنْ یَّکُوْنَ عَارِفًا بِطَرِیْقِ الْاِیْصَالِ إِلَیْہِ سُبْحَانَہٗ ،عَالِمًا بِمَا یَجِبُ لَہٗ تَعَالٰی ؎رحمتِ حق کے سامنے شیطان کا ضعف حضرت مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فَإِنَّ الشَّیْطٰنَ مَعَ اللُّطْفِ الْاِلٰہِیِّ لَا أَضْعَفَ مِنْہُ وَلَا أَذَلَّ فَإِنَّہٗ مُشَبَّہٌ بِالْکَلْبِ الْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ، وَلِذَا قَالَ تَعَالٰی اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا؎ حق تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ ہوتے ہوئے شیطان سے بڑھ کر کوئی کمزور اور ذلیل نہیں۔ پس تحقیق وہ اس کتّے کے مشابہ ہے جو دروازے پر کھڑا رہتا ہے۔ جیسا کہ بنگلوں اور بڑے لوگوں کے مکانوں پر خونخوار خطرناک قسم کا کتّا کھڑا رہتا ہے، جب کوئی داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ کتّا بھونکتا ہے، پھر آنے والا مالکِ مکان کو پکارتا ہے، وہ اس کتّے کو ڈانٹتا ہے خاموش! ہمارا آدمی ہے، پھر وہ دُم ہلانے لگتا ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے اپنے دربارِ قرب سے باہر شیطان کھڑا کیا ہوا ہے، جو حق تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے ارادہ کرتا ہے، یہ بھونکتا ہے اور وسوسے ڈالتا ہے۔ پس حکم ہوگیا کہ ہم کو پکارو، یہ ہمارا کتّا ہے، ہمارے حکم سے خاموش ہوگا۔ تم اس کے وسوسوں ------------------------------