کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ارشاد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ایمان چوں سلامت بہ لب گور بریم احسنت بریں چستی و چالاکی ما جب ایمان کو قبر میں سلامتی سے لے جاؤں گا اس وقت میں دین میں اپنی چستی و چالاکی کو بہ نظر استحسان دیکھوں گا۔عالم اور عارف کا فرق ایک شخص نے دریافت کیا کہ مولویوں کو کیا ہوا جو حضرت حاجی صاحب کی طرف رجوع کرتے ہیں، یہ لوگ تو خود لکھے پڑھے ہیں، وہاں کیا چیز ہے جس کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ وہ کون سی بات ہے جو کتابوں میں نہیں؟ فرمایا کہ میں ایک مثال بتاتا ہوں۔ فرض کرو کہ ایک شخص تو وہ ہے کہ جس کے پاس تمام مٹھائیوں کی فہرست موجود ہے، مگر اس نے چکھی ایک بھی نہیں اور ایک شخص وہ ہے کہ نام تو ایک مٹھائی کا بھی اس کو یاد نہیں، مگر ہاتھ میں لیے ہوئے کھارہا ہے۔ بتلاؤ تو مٹھائی کے فوائد حاصل کرنے میں آیا وہ نام یاد رکھنے والا اس حقیقت جاننے والے کا محتاج ہے یا وہ حقیقت جاننے والا اس نام یاد رکھنے والے کا۔ ظاہر ہے کہ پہلا (یعنی مٹھائی کا نام یاد رکھنے والا) دوسرے کا محتاج ہے نہ کہ برعکس۔ اسی طرح ہم اہلِ الفاظ ہیں اور حضرت صاحبِ معنیٰ۔ تو صاحبِ معنیٰ محتاج نہیں ہوتا اہلِ لفظ کا اور صاحبِ لفظ صاحبِ معنیٰ کا محتاج ہوتا ہے۔ واقعی خوب حقیقت واضح ہوگئی جس سے علماء اور عرفاء میں فرق سمجھ میں آگیا۔خلاصۃ المقالہ علم اور علماء کی حقیقت خشیتِ الٰہیہ ہے۔ إِنَّ الْعِلْمَ یَقْتَضِی الْخَشْیَۃَ مِنَ اللہِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ الْعَامِلِیْنَ ہُمُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ اللہَ ؎ علمِ حقیقی وہ ہے جس ------------------------------