کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہے اس سے بڑھ کر عندالخالق مذموم ہے۔ ان کو تو ہماری شکستگی اور آہ و زاری پسند ہے۔ استغفار اور توبہ کی راہ سے محبوب بننے کا راستہ اختیار کیوں نہیں کرتے؟اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ قرآن میں ارشاد ہے، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو محبوب بنالیتا ہے۔ بس گناہ کو ترک کرکے ندامتِ قلب سے استغفار کرلیں اور آیندہ کے لیے عزم اور ارادہ پکا کرلیں کہ اب یہ گناہ نہیں کرنا ہے،تو بس کام بن گیا، آیندہ کی فکر بھی نہ کرو کہ کہیں پھر یہ گناہ نہ ہوجاوے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے پیدا ہوئے ہیں، ذکرِ گناہ کے لیے نہیں۔ ماضی کا غم اور مستقبل کی فکر سب حجاب و پردہ ہے۔ ماضی استغفار سے اور مستقبل دعا اور توکل اورحسنِ تدبیر سے روشن ہے، صرف حال کو درست کریں، عاجزی اور زاری کی راہ اختیار کریں، زور اور طاقت پر ناز نہ کریں، حق تعالیٰ کے سامنے عاجزی ہی محبوب ہے۔ تیری ہزار رفعتیں تیری ہزار برتری میری ہر اِک شکست میں میرے ہر اِک قصور میں (اصغرؔ گونڈوی)شیخ کی محبت پر عظمت غالب رہے شیخ کی محبت کو عظمت کے ساتھ جمع کرنا چاہیے، ورنہ صرف محبت سے اس وقت تک تو گاڑی چلتی رہے گی جب تک رائے مرشد اور رائے طالب میں توافق اور اتحاد ہے، اور اگر رائے طالب کے خلاف شیخ نے رائے دی تو اس وقت عظمتِ مرشد سے اپنی رائے کو فنا کرے گا۔ تجربہ یہی ہے کہ محبتِ مرشد پر اس کی عظمت غالب رہے ورنہ تعلق کا نباہ مشکل ہوگا۔منشائے محمود سے قابلِ زجر قابلِ اَجر ہوجاتا ہے منشائے محمود سے جو اعمال مذمومہ ہوتے ہیں وہ صورتاً اور بظاہر مذمومہ ہیں، مگر دراصل وہ محمود قرار دیےجاتے ہیں۔ نظیر یہ ہے کہ مصالحت بین المسلمین کے لیے کذب اختیار کرنا، یہاں منشائے محمود ہونے کے سبب کذب جیسا مذموم عمل قابلِ زجر تو کیا ہوتا قابلِ اَجر ہورہا ہے۔