کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اُٹھائے اور جواب بھی لکھ مارا اور ان کی ہوگا، ہوگی سے بعض لوگ بڑے خوش ہوئے۔ ہر گری پڑی چیز کا کوئی تو اُٹھانے والا ہوتا ہی ہے، مگر واہ رے ہمارے حکیم الامّت! کیا جواب تحریر فرمایا ہے،سنیے؟ فرماتے ہیں: ہر انسان کو اپنا خاندانی نسب نامہ اور شجرہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے، اس کو مان لینے میں کوئی نقصان نہیں۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں بندر کی اولاد ہوں تو اس کا جواب دینے کی ضرورت ہی کیا پیش آئی؟ ہم خوشی سے تسلیم کرتے ہیں کہ آپ بے شک بندر کی اولاد ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر آپ اگر دعویٰ کریں کہ میں سور کی اولاد ہوں، کتّے کی اولاد ہوں، تو ہم کو تسلیم کرنے میں صفِ اوّل میں پاؤگے اور ہم کہیں گے کہ ہاں ہاں ! بالکل ٹھیک کہتے ہو، تم واقعی بندر یا سور کی اولاد ہو، ہم آپ کا خاندانی شجرہ اور نسب نامہ قبول کرتے ہیں، اس کے لیے تردید کی کیا ضرورت پیش آئی؟ ہر شخص کو اپنا خاندانی شجرہ پیش کرنے کا معقول حق ملنا چاہیے۔ البتہ ہم اپنا شجرہ بھی پیش کرتے رہیں گےکہ ہم الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پیغمبر زادے ہیں، ہم کو ہمارے خالق و مالک نے یَا بَنِیْۤ اٰدَمَ پکارا ہے، تو ہم پیغمبرزادوں اور شریف زادوں کو کیا پڑی ہے کہ بندر اور سور یا کتّوں کی اولاد والے شجرہ اور نسب نامہ پیش کرنے والوں سے جھک ماریں؟ ڈاروِن صاحب کی تحقیق پر جو لوگ اپنا شجرہ اور خاندان ان سے ملانے کے لیے پیش رفت کرنا چاہیں، ہم ان کی پیش روی میں ذرا بھی حائل نہ ہوں گے اور نہ ان کے خلاف کبھی قلم اُٹھانے کی ضرورت پیش کرتے ہیں۔ایک مجرّب وظیفہ برائے عافیتِ اہل و عیال ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے اپنی جان اور اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال اور مال کے بارے میں خوفِ ضرر رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ صبح و شام یہ پڑھ لیا کرو: بِسْمِ اللہِ عَلٰی دِیْنِیْ وَنَفْسِیْ وَوَلَدِیْ وَأَہْلِیْ وَمَالِیْ؎ ------------------------------