کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
سکھوں کی فوج زیادہ ہے، مجاہدین کی تعداد کم ہے، آپ کسی راہ سے اپنے ساتھیوں کو لے کر فرار ہوجائیے۔ تو کیا جواب لکھا تھا، سبحان اللہ! تحریر فرمایا: ’’کفار کی اکثریت کے خوف سے فرار ہونا مسلمانوں کی غیرت کے خلاف ہے، آج جمعہ کا دن ہے، میدان بالاکوٹ ہے، یا تو ہم بے کسوں کی حق تعالیٰ مدد فرمائیں گے اور ہم لاہور دیکھیں گے یا پھر جنت الفردوس دیکھیں گے۔‘‘ بالآخر اشراق پڑھ کر جنگی لباس زیب تن فرماکر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا ؎ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را سید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ اسماعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں بزرگوں نے دامنِ کہسار کے گھاس کے تنکوں پر اور پہاڑوں کی کنکریوں میں اپنے خونِ مبارک کو حق تعالیٰ کی راہ میں بکھیر دیا ؎ خونِ خود را بر کہہ و کہسار ریختعلماء کا ادب علومِ وحی کا ادب ہے علماء کا اکرام ان کے حاملِ علمِ نبوت ہونے کے سبب سے ہوتا ہے، اکرامِ ظرف اکرامِ مظروف کے سبب سے ہوتا ہے۔ عطر سو روپیہ تولہ جس شیشی میں رکھا جاتا ہے اس شیشی کی بھی عزت کی جاتی ہے۔ اسی طرح جس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت ہوتی ہے وہ قلب جس قالب میں رہتا ہے اس قالب کی بھی عزت کی جاتی ہے۔ اللہ والوں کا جسم بھی موردِ رحمت ہوتا ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ’’مرقاۃ‘‘ جلد اوّل میں تحریر فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے دو سو تیس سال کے بعد ان کی قبر کے پڑوس میں کسی کو دفن کیا گیا تو آپ کی قبر کھل گئی، اس وقت دیکھا گیا تو کفن بھی تازہ تھا اور جسم بھی تازہ تھا، جیسے ابھی دفن کیے گئے ہوں۔