کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کرلیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: اَقْرَأَ کُمْ اُبَیٌّ یعنی تم میں سب سے بڑے قاری اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کو اس سے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دینی ہے کہ لوگ ان سے رسمِ تلاوت سیکھیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے اخذ فرمایا تھا۔ اور اسی طرح سلف سے خلف اخذ کرتے رہیں۔ چناں چہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بہت تابعین رحمہم اللہ نے رسمِ قرأت کو اخذ کیا۔؎ذکر کو شکر پر مقدم کرنے کی حکمت ذکر کو شکر پر مقدم کرنے میں کیا حکمت ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںإِنَّمَا قَدَّمَ الذِّکْرَ عَلَی الشُّکْرِ لِأَنَّ فِی الذِّکْرِ اشْتِغَالًا بِذَاتِہٖ تَعَالٰی وَفِی الشُّکْرِ اشْتِغَالًا بِنِعْمَتِہٖ وَالْاِشْتِغَالُ بِذَاتِہٖ تَعَالٰی أَوْلٰی مِنَ الْاِشْتِغَالِ بِنِعْمَتِہٖ؎ فَاذْکُرُوْنِیْ کے بعد اللہ تعالیٰ نے وَاشْکُرُوْا لِیْ نازل فرما کر اپنے ذکر کو مقدم فرمادیا، جس کی وجہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ذکر کا حاصل اللہ کے ساتھ مشغول ہونا ہے اور شکر کا حاصل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں مشغول ہونا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ منعم کے ساتھ مشغول ہونا نعمتوں کی مشغولی سے افضل اور اہم ہے ؎ بسودائے جاناں زجاں مشتغل بذکرِ حبیب از جہاں مشتغل بیادِ حق از خلق بگریختہ چناں مست ساقی کہ مے ریختہ محبوبِ حقیقی کی یاد میں وہ مزہ آیا کہ اپنی جان سے بے پروا ہوگئے اور سارے جہاں سے بھی۔ حق تعالیٰ کی یاد میں مخلوق سے کنارہ کش ہیں اور ساقی پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ جامِ مے ------------------------------