کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
نفس امّارہ بالسوء علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں تحریر فرماتے ہیں: نفس امّارہ یعنی کثیر الامربالسوء، بُرائی کی طرف بہت حکم کرنے والا۔ اَلسُّوْءَ پر الف لام جنس کا ہے پس قیامت تک جتنی قسمیں بُرائی کی پیدا ہوں گی اس میں داخل ہیں (کیوں کہ جنس وہ کلی ہے جو انواعِ مختلف الحقائق پر مشتمل ہو)اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّیْ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس میں یہ مَا مصدریہ ظرفیہ زمانیہ ہے۔ أَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ مطلب یہ ہے کہ نفس کی ذاتی خاصیت یہی ہے کہ وہ بُرائی کا کثرت سے حکم دینے والا ہے لیکن جن حضرات پر اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاصّہ کا سایہ ہوتا ہے وہ مستثنیٰ ہیں۔ چناں چہ انبیاء علیہم السلام کے نفوس اس سے مستثنیٰ ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ ؎اولیائے کرام کے تحفظ کا سبب اور چوں کہ اولیاء اللہ پر بھی حق تعالیٰ کی رحمت کا خاص سایہ ہوتا ہے، اس لیے وہ نفس کے شرور سے محفوظ رہتے ہیں اور احیاناً صدورِ خطا پر اُن کو فوراً توبہ کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔ نفس امارہ کی اصلاح کا صحبتِ اہل اللہ سے خاص تعلق ہے۔ارشاد امام غزالی امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو اہلِ علم حضرات اللہ والوں سے اپنے نفس کی اصلاح نہیں کراتے ان کا نفس حُبِّ جاہ سے پھول کر کپّا ہوجاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مواعظ میں اکثر اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر نہایت وجد سے پڑھا کرتے تھے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا ------------------------------