کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہے، لیکن اگر کوئی روح اللہ تعالیٰ سے غافل ہوکر کسی حسین پر عاشق ہوجاتی ہے، تو تعلق مع اللہ سے محرومی کے سبب اس میں کمزوری آجاتی ہے اور عناصر کے اجزائے متضادّہ اور اجزائے پریشاں کو سنبھالنے سے عاجز رہتی ہے، اور جس پر عاشق ہے وہ بھی اجزائے پریشاں اور عناصرِ متضادّہ کا مرکب ہے، پس دو پریشان جمع ہوجاتے ہیں اور اجزائے پریشاں میں اجزائے پریشاں کا اضافہ ہوکر عذاب میں روح پڑجاتی ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے، عاشقِ مجاز ہر وقت بے چین اور پریشان رہتا ہے۔ احقر کی کتاب ’’روح کی بیماریاں اور اُن کا علاج‘‘ میں اس پریشانی کی تفصیل اور اس کا علاج درج ہے۔ عشقِ مجازی کے مریض اس کتاب کے مطالعہ سے اپنی بیماری کی اکسیر دوا حاصل کرسکتے ہیں۔ اور جب تعلق مع اللہ سے روح غالب ہوجاتی ہےتو عناصر اور اجزائے پریشاں خاک و بادو آب و آتش کو پُرسکون رکھتی ہے۔یہ اللہ والے خود بھی پُرسکون جیتے ہیں اور دوسروں کو بھی ان کی صحبت سے سکون سے جینے کا قرینہ ملتا ہے۔تفسیر لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا تاکہ آزمایش کرے تمہاری کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے؟أَصْلُ الْبَلَاءِ الْاِخْتِبَارُ وَہٰذَا یَقْتَضِیْ عَدَمَ الْعِلْمِ بِمَا اخْتَبَرَہٗ بلاء کے معنیٰ امتحان ہے اور امتحان کا مفہوم عدم علم ہے،جس کا امتحان لیا جاتا ہے، اور یہاں اس مفہوم میں یہ صحیح نہیں۔ وَہُوَ غَیْرُصَحِیْحٍ فِیْ حَقِّہٖ عَزَّوَجَلَّ پس اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اپنے اس مفہوم میں مستعمل نہیں، بلکہ استعارہ ہے۔ اور ہمارے مرشد مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف جب ابتلا یا امتحان کی نسبت کی جاتی ہےتو مراد یہ ہوتا ہے کہ اپنی مخلوق اور فرشتوں پر ان کے کمالات کا ظہور ہو، جیسا کہ وَاِذِ ابْتَلٰۤی اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہٗ میں ارشاد ہے، ورنہ حق تعالیٰ شانہٗ کو تمام علم ماضی اور حال اور مستقبل کا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے بھی ابتلا کا لفظ جو آیا ہے تو مراد وہاں بھی یہی ہے کہ آپ کے درجہ علیا اور مقامِ خلّت کی