کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
یہ نعمتِ ہدایت اور توفیق حق تعالیٰ کی ولایت کی تفسیر ہے۔ حضرت آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ کی تفسیر میں کہ حق تعالیٰ کی طرف سے ظلمات سے اخراج بذریعۂ ہدایت وتوفیق یہ ولایت کی تفسیر ہے یُخْرِجُہُمْ بِہِدَایَتِہٖ وَتَوْفِیْقِہٖ وَہُوَ تَفْسِیْرُ الْوِلَایَۃِ اور ولی کی تفسیر میں فرمایا أَیْ مُعِیْنُہُمْ وَمُحِبُّہُمْ وَمُتَوَلِّیْ أُمُوْرِہِمْ، وَأَفْرَدَ النُّوْرَ لِوَحْدَۃِ الْحَقِّ وَجَمَعَ الظُّلُمَاتِ لِتَعَدُّدِ فُنُوْنِ الضَّلَا لِ؎ یعنی اللہ تعالیٰ ان کا معین ہے اور ان کا محب ہے اور ان کے امور کا متولی ہے، اور نور کو مفرد بیان فرمایا بوجہ اس کے کہ حق ایک ہوتا ہے اور ظلمات کو جمع کے صیغہ سے بیان فرمایا بوجہ اس کے کہ گمراہی کے انواع متعدد ہوتے ہیں۔استقامت کی دعا حدیث سے عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ:کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَثِیْرًا مَّا یَدْعُوْ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ؎ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے دِلوں کے بدلنے والے! ہمارے دل کو اپنے دین پر قائم رکھیے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اکثر یہ دعا کیوں مانگا کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ لَیْسَ مِنْ قَلْبٍ إِلَّا وَہُوَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ اِنْ شَاءَ أَنْ یُّقِیْمَہٗ أَقَامَہٗ وَإِنْ شَاءَ أَنْ یُّزِیْغَہٗ أَزَاغَہٗ؎ نہیں کوئی قلب مگر وہ اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔ اگر چاہے قائم رکھے حق پراور اگر چاہے ٹیڑھا کرنا تو ٹیڑھا کردے۔ ------------------------------