کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
انگڑائی نہ لے۔ ۳)وَالتَّثَاؤُبْ، جمائی نہ لے۔۴)وَتَغْطِیَۃُ الْفَمِ؎ بدون ضرورت جمائی روکنے کی قدرت رکھتے ہوئے نہ روکنا یعنی دانتوں سے ہونٹ دباکر جمائی روک سکتا تھا، مگر پھر بھی ہاتھ منہ پر رکھ کر روکا تو یہ مکروہ ہے۔ إِنْ أَمْکَنَہٗ عِنْدَ التَّثَاؤُبِ أَنْ یَّأْخُذَ شَفَتَہٗ بِسِنِّہٖ، فَلَمْ یَفْعَلْ وَغَطّٰی فَاہُ بِیَدِہٖ أَوْ بِثَوْبِہٖ یُکْرَہُ، کَذَا رُوِیَ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللہُ؎ ۵)وَالسَّدْلُ، کپڑوں کو بدن پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں کنارے دونوں طرف لٹکے ہوں۔ ۶)وَالْفَرْقَعَۃُ، انگلیاں چٹخانا۔ ۷)وَالتَّشْبِیْکُ، انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا۔۸) تَقْلِیْبُ الْحَصٰی، کنکریوں کو ہٹانا۔ خشوع شرطِ قبول ہے مگر بدونِ خشوع نماز ہوجاتی ہے۔ واجب الاعادہ نہیں ہوتی۔ نَعَمْ اَلْحَقُّ أَنَّہٗ شَرْطُ الْقَبُوْلِ لَا الْاِجْزَاءِ؎خشوع کی حقیقت از حضرت حکیم الامت تھانوی خشوع کی حقیقت ہے سکون یعنی قلب کا بھی کہ خیالاتِ غیر کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے اور جوارح کا بھی کہ عبث حرکتیں نہ کرے۔ اور اس کی فرضیت میں کلام ہے، مگر حق یہ ہے کہ صحت صلوٰۃ کا تو موقوف علیہ نہیں اور اس مرتبہ میں فرض نہیں، قبولِ صلوٰۃ کا موقوف علیہ ہے اور اس مرتبہ میں فرض ہے: قَدْ رَوَی الطَّبَرَانِیُّ فِی ’’الْکَبِیْرِ‘‘ بِسَنَدٍ حَسَنٍ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَوَّلُ شَیْءٍ یُرْفَعُ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ الْخُشُوْعُ حَتّٰی لَا تَرٰی فِیْہَا خَاشِعًا۔ کَذَا فِی مَجْمَعِ الزَّوَاءِدِ۔ وَقَدْ رَوَی الدَّیْلَمِیُّ فِیْ ’’مُسْنَدِ الْفِرْدَوْسِ‘‘ مَرْفُوْعًا بِسَنَدٍ ضَعِیْفٍ لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّایَتَخَشَّعُ۔ کَذَا فِی الْجَامِعِ الصَّغِیْرِ؎ ------------------------------