کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کی ذرّیات کو (بشرطِ ایمان) ان کے درجات میں جنت میں جمع فرمادیں گے، اگرچہ وہ اعمال میں کم ہوں گے، تاکہ وہ اپنی آنکھیں اپنی ذرّیات سے ٹھنڈی کریں۔ اور الحاق سے مراد مستقل سکونت ہے نہ کہ محض ان سے ملاقات اور زیارت کی اجازت۔محبت پر ثمرۂمعیت کے متعلق علامہ آلوسیکی تحقیق علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہوَلَیْسَ الْمُرَادُ بِالْمَعِیَّۃِ اتِّحَادُ الدَّرَجَۃِ وَلَا مُطْلَقُ الْاِشْتِرَاکِ فِیْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ بَلْ کَوْنُہُمْ فِیْہَا بِحَیْثُ یَتَمَکَّنُ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْہُمْ مِنْ رُّؤْیَۃِ الْاٰخَرِ وَزِیَارَتِہٖ مَتٰی أَرَادَ وَإِنْ بَعُدَتِ الْمَسَافَۃُ بَیْنَہُمَا، وَذَکَرَ غَیْرُ وَاحِدٍ اَنَّہٗ لَا مَانِعَ مِنْ أَنْ یَّرْفَعَ الْأَدْنٰی إِلٰی مَنْزِلَۃِ الْأَعْلٰی مَتٰی شَاءَ تَکْرِمَۃً لَّہٗ ثُمَّ یَعُوْدُ وَلَا یَرٰی أَنَّہٗ أَرْغَدُ مِنْہُ عَیْشًا وَلَا أَکْمَلُ لَذَّۃً لِأَنْ لَّا یَکُوْنَ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قَلْبِہٖ وَکَذَا لَا مَانِعَ مِنْ أَنْ یَّنْحَدِرَ الْأَعْلٰی إِلٰی مَنْزِلَۃِ الْأَدْنٰی ثُمَّ یَعُوْدُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّرٰی ذٰلِکَ نُقْصًا فِیْ مُلْکِہٖ أَوْ حَطًّا مِّنْ قَدَرِہٖ؎ ترجمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ معیت سے یہ مراد نہیں کہ سب ایک درجہ میں ہوں گے، بلکہ اعلیٰ منزل والے اسفل میں آسکیں گے اور اسفل والے اعلیٰ منزل میں جاسکیں گے اور ایک دوسرے کو یہ احساس نہ ہوسکے گا کہ ہم سے اعلیٰ والے زیادہ عیش میں ہیں، تاکہ ان کے دل میں حسرت کا صدمہ نہ ہو اور اعلیٰ والے احساس نہ کرسکیں گے کہ ادنیٰ والے ہم سے کم اور بے قدر ہیں تاکہ اپنے متعلقین کے کم عیش میں ہونے سے صدمہ نہ ہو۔شانِ نزول معیت پر جس آیت کی تفسیر ہورہی ہے اس کے بارے میں ایک روایت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا ------------------------------