کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا لَا یَبۡغُوۡنَ عَنۡہَا حِوَلًا ﴿۱۰۸﴾ قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا ﴿۱۰۹﴾ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ؎کیفیاتِ روحانیہ اور مادّیہ کا فرق کیفیاتِ روحانیہ اور کیفیاتِ مادّیہ میں فرق یہ ہے کہ اوّل کا تعلق مادّہ سے نہ ہوگا اور دوسرے کا تعلق مشروط ہے مادّہ کے ساتھ۔ (الطرائف والظرائف)علماء کا لباس علماء اور فقہاء کو طویل عمامہ اور وسیع لباس (طویل و عریض) پہننا مستحسن ہے۔یَحْسُنُ لِلْفُقَہَاءِ لَفُّ عِمَامَۃٍ طَوِیْلَۃٍ وَلُبْسُ ثِیَابٍ وَّاسِعَۃٍ۔ لُبس: لام پر ضمہ۔ پہننا۔ اور لام پر فتحہ۔ التباس (منجد)آیت ’’فَفِرُّوْاۤ اِلَی اللہِ‘‘ کے معنیٰ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَفِرُّوْاۤ اِلَی اللہِ ؎ حق تعالیٰ کی طرف بھاگ کر آجاؤ۔ جب ہوائی جہاز طوفان میں پھنستا ہے تو پائلٹ رفتار کو تیز کردیتا ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے بندوں کو خواہشاتِ نفس اور گردو پیش کے جاذبِ اسباب غیراللہ سے نجات کا راستہ اور اپنے قرب کا طریقہ ارشاد فرمایا کہ معمولی رفتار سے آؤگے تو غیراللہ تمہیں پھنسالیں گے، لہٰذا تیز رفتار سے ہمارے پاس دوڑ کر ------------------------------