کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
خوف اور حزن کی تعریف علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر کبیر میں لکھا ہے: اَلْخَوْفُ عِبَارَۃٌ عَنْ تَاَلُّمِ الْقَلْبِ بِسَبَبِ تَوَقُّعِ حُصُوْلِ مَضَرَّۃٍ فِی الْمُسْتَقْبَلِ یعنی خوف نام ہے کہ دل کو تکلیف ہو آیندہ کے مضرات کے اندیشے سے۔ اَلْحُزْنُ عِبَارَۃٌ عَنْ تَاَلُّمِ الْقَلْبِ بِسَبَبِ فَوْتِ نَفْعٍ کَانَ مَوْجُوْدًا فِی الْمَاضِیْ؎ یعنی حزن قلب کی اس بے چینی کا نام ہے جو کسی نفع کے فوت ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی چوں کہ مال اور اولاد سے آدمی کو بہت خوشی ہوتی ہے اب اس کے چھوٹنے کا غم ہوتا ہے۔ اب اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم آخرت کی آنے والی ہولناکیوں سے اندیشہ نہ کرو اور نہ دنیا کے مال و اولاد کے چھوٹنے پر رنج کرو کیوں کہ آگے تمہارے لیے امن ہے مستقبل کے خطرات سے اور نعم البدل ہے ماضی کے تمام مافات سے۔ نعم البدل کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ؎ یعنی تم جنت کے ملنے پر خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا دنیا میں رسولوں کی زبان پر۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ مؤمن موت کے وقت اور قبر میں اور بعث کے وقت اہوال اور فزعِ شدید سے نہیں گھبرائے گا بلکہ اٰمن القلب اور ساکن الصدر رہے گا۔ یعنی اطمینان اور سکون سے رہے گا۔ میرے استاذ محترم حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدظلہٗ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لَا تَخَافُوْا کو مقدم فرمایا اور لَا تَحْزَنُوْا کو مؤخر یعنی مستقبل کی مصیبت ------------------------------