کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
تیسری تفسیر:اَلنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ بِذِکْرِ اللہِ تَعَالٰی وَطَاعَتِہٖ؎ نفسِ مطمئنہ وہ نفس ہے جس کو صرف حق تعالیٰ کی یاد اور اطاعت ہی سے چین ملتا ہو ؎ ترا ذکر ہے مری زندگی ترا بھولنا مری موت ہےاطمینان کی لغوی تحقیق علامہ امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ’’المفردات‘‘میں لکھا ہے کہ اطمینان نام ہے سکون و ثبات اور استقرار بعد الاضطراب کا۔ یعنی نفسِ امّارہ اور لوّامہ میں جو بے سکونی اور پریشانی تھی وہ چین اور سکون سے بدل گئی۔ جس طرح قطب نما کی سوئی جب قطب شمالی سے منحرف ہوتی ہے تو بے چین اور متحرک رہتی ہے اور جب رُخ صحیح قطب شمالی کی طرف ہوجاتا ہے تو ٹھہرجاتی ہے۔ اسی کا نام استقرار بعدالاضطراب ہے۔نفسِ مطمئنہ کی ایک عارفانہ تفسیر از تفسیر مظہری، جلد۹ اور ۱۰، صفحہ۲۶۱ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ جن کو شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ وقت کا امام بیہقی فرمایا کرتے تھے اور جو حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ بھی ہیں، اپنی تفسیر مظہری میں نفسِ مطمئنہ کی تعریف یوں فرماتے ہیں: اَلنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ فِیْ ذِکْرِ اللہِ تَعَالٰی وَطَاعَتِہٖیعنی نفسِ مطمئنہ وہ ہے جو ذکر اللہ میں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اطمینان پاوے کَمَا تَطْمَئِنُّ السَّمَکَۃُ فِی الْمَاءِ؎ جیسا کہ مچھلیاں پانی میں اطمینان پاتی ہیں نہ کہ پانی سے یا پانی کے ساتھ۔ مثلاً اگر کسی مچھلی کا تمام جسم پانی میں ہو، صرف سر یا صرف ایک اعشاریہ حصہ جسم کا پانی سے ------------------------------