کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کیوں کہ ظاہر ہے کہ ایسی چیز (یعنی اولیاء اللہ کی صحبت) جو مردودیت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے (یعنی سوئے خاتمہ سے نجات دلادے اور حسنِ خاتمہ کی دولت بخشے) ہزاروں سال کی ایسی عبادت سے بڑھ کر ہے جس میں یہ اثر نہ ہو۔ اور فرمایا کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حدیثوں میں تصوف نہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ حدیث ہی نہیں جس میں تصوف نہیں۔ یعنی ہر حدیث میں تصوف ہے، مگر لوگ تصوف کی حقیقت نہیں جانتے (یعنی ظاہر اور باطن کو سنت اور شریعت کے مطابق رکھنے کا اہتمام) ۔اور فرمایا کہ پہلے میرا یہ خیال تھا کہ شیخ کے پاس رہنے کی ایسی ضرورت نہیں، ذکر و شغل کرتا رہے تو گو شیخ دور ہو کافی ہے، لیکن تجربہ سے اب یہ معلوم ہوا کہ جو نفع ذکر و شغل کا شیخ کے پاس رہ کر ہوتا ہے وہ دور رہ کر نہیں ہوتا۔تاثیرِ صحبتِ اہل اللہ محتاج ِدلیل نہیں حضرت حکیم الامت مجدد الملّت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ’’حسن العزیز‘‘ صفحہ۱۶ پر فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کی صحبت میں بالخاصّہ اثر ہے، جیسے مقناطیس میں لوہے کو کھینچنے کا اثر ہے، کوئی خاص وجہ اس اثر کی نہیں بتلائی جاسکتی (بس یہی کہیں گے اللہ تعالیٰ نے مقناطیس میں کشش کا یہ اثر رکھا ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اللہ والوں کی صحبت میں یہ اثر رکھا ہے کہ ان کی صحبت اثر کر ہی جاتی ہے۔ واقعی خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اور فرمایا کہ شیخ کے پاس رہ کر ذکر و شغل کرنا ایسا ہے جیسا کہ کوئی مریض طبیب کے پاس رہ کر علاج کرائے اور دوسرا دور رہ کر صرف خط و کتابت سے علاج کرائے، تو نفع میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ صحبتِ شیخ میں انسان بدون ارادہ غیرشعوری طور پر اس کے اخلاق کو جذب کرتا رہتا ہے۔ اور ایک مثال اور ہے وہ یہ کہ شوہر اور بیوی دور دور رہ کر خط و کتابت سے محبت کرتے رہیں تو کیا اولاد ہوسکتی ہے؟ اسی طرح شیخ کے ساتھ صرف خط و کتابت رکھنے سے کوئی معتدبہٖ نتیجہ نہیں پیدا ہوسکتا، البتہ ایک مرتبہ ایک عرصہ تک پاس رہ لے پھر خط و کتابت سے کام چل سکتا ہے، پھر ثمراتِ خاصّہ کے لیے گاہے گاہے صحبتِ شیخ ضروری ہے۔