کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
تنہائی کے آنسوؤں کی قدر و منزلت ۷) وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا أَیْ بِقَلْبِہٖ مِنَ التَّذَکُّرِ أَوْبِلِسَانِہٖ مِنَ الذِّکْرِ یعنی اللہ تعالیٰ کو دل میں یاد کیا یا زبان سے ذکر کیا۔ خلوت کی قید اس لیے ہے کہ تنہائی میں ریا سے حفاظت رہتی ہے۔ امام بیہقی کی روایت سے خلوت سے مراد غیراللہ سے عدم التفات ہے یعنی طَہَارَۃُ الْأَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْأَغْیَارِ باطن کا غیراللہ کی نجاست سے پاک ہونا۔ کذا فی الروح۔ اور عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و حماد بن زید کی روایت سے خلوت حِسّیہ مراد ہے۔ أَیْ فِیْ مَوْضِعٍ خَالٍ وَہِیَ أَصَحُّیعنی تنہائی میں آنسو کا نکلنا اصح ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ذَکَرَ اللہَ بَیْنَ یَدَیْہِ ہے اور عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور حماد بن زید رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میںذَکَرَ اللہَ فِیْ خَلَاءٍ ہے۔ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قولِ راجح یہی ہے کہ یہ فضیلت مذکورہ تنہائی میں رونے پر ہے۔ (فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ) أَیْ فَاضَتِ الدُّمُوْعُ مِنْ عَیْنَیْہِ، وَقَالَ الْقَارِیُّ رَحِمَہُ اللہُ فِی الْمِرْقَاۃِ أَوْ مِنْ أَحَدِہِمَا؎ یعنی اس کی دونوں آنکھوں سے یا ایک آنکھ سے آنسو نکل پڑیں، اور آنکھوں کی طرف بہنے کی نسبت مجاز مرسل ہے جس کا نام تَسْمِیَۃُ الْمَحَلِّ بِاسْمِ الْحَالجیسے نہر جاری ہے حالاں کہ پانی جاری ہے۔ یہ آنسو اگر مراقبۂ اوصافِ جلال سے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خشیت سے ہیں اور اگر مراقبۂ اوصافِ جمال سے ہیں تو یہ رونا غلبۂ شوق سے ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روایت حماد بن زید میںفَفَاضَتْ عَیْنَاہُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ ہے ------------------------------