کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’موضوعاتِ کبیر‘‘میں اس عبارت کو موضوع قرار دیا ہے اور لَا أَصْلَ لَہٗ فرمایا ہے۔؎ مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا مرجاؤ مرنے سے پہلے۔ حضرت حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہإِنَّہٗ غَیْرُثَابِتٍیہ ثابت نہیں ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول صوفیا کا ہےقُلْتُ ہُوَ مِنْ کَلَامِ الصُّوْفِیَّۃِ۔؎ بزرگوں کے اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہمُوْتُوْا اِخْتِیَارًا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا اِضْطِرَارًا وَالْمُرَادُ بِالْمَوْتِ الْاِخْتِیَارِیِّ تَرْکُ الشَّہَوَاتِ وَاللَّہَوَاتِ وَمَا یَتَرَتَّبُ عَلَیْہَا مِنَ الذَّلَّاتِ وَالْغَفَلَاتِ مرنے سے پہلے مرجانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خواہشاتِ غیرشرعیہ کو ترک کردو،مرنے کے بعد تو مجبوراً چھوڑنا ہی پڑے گا، جیتے جی زندگی میں چھوڑدوگے تو اجرِ عظیم پاؤگے اور مرکے چھوڑا تو یہ مجبوری کا چھوڑنا ہوا جس پر زجرِ عظیم کی وعید ہے۔چند فوائدِ علمیہ ارشاد فرمودہ حضرت تھانوی گناہ گار اولاد یا بیوی سے ترک تعلق واجب نہیں دعائے قنوت میں ہے کہ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَاس عبارت سے عوام بعض علماء اور مشایخ پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی فلاں اولاد بے نمازی اور فاجر ہے، مگر پھر بھی ترکِ تعلق نہیں کرتے، تو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ------------------------------