کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
صَبْرِیْ فَلَمْ یَخْذُلْنِیْ وَیَا مَنْ رَاٰنِیْ عَلَی الْخَطَایَا فَلَمْ یَفْضَحْنِیْ؎ اے اللہ! آپ کے بے شمار انعامات کا ہر ذرّۂ کائنات کی لسان سے ہم شکر ادا کرتے ہیں اور شکر کا حق ادا نہ کرنے کی تقصیر پر ندامت کے ساتھ استغفار کرتے ہیں۔آیت وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہٗ کی تفسیر حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق نسبتِ عصیان جائز نہیں،بعض نادان لوگوں کو عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ سے شبہ ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے عصیان صادر ہوا، لیکن یہ جہل عظیم ہے۔ قرآن کا بعض بعض کی تفسیر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عصیان سے آپ کے نسیان کو تعبیر فرمایا ہے بوجہ آپ کے علوشان اور علو مرتبت بقاعدہ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّاٰتُ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ پارہ۱۶، صفحہ۲۷۵ پر ارقام فرماتے ہیں کہ یہ تعبیر یَدُلُّ عَلَی اسْتِعْظَامِ ذَالِکَ مِنْہُ لِعُلُوِّ شَانِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ؎ اور فرماتے ہیں کہ نسبت عصیان کی اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ جائز نہیں ہے پھر کیسے جائز ہوگی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ؟ نیز اکلِ شجرہ کا واقعہ قبل عطائے نبوت کا ہے جس پر یہ آیت دلالت کرتی ہے ثُمَّ اجْتَبَاہُ رَبُّہٗ پھر ان کو ان کے رب نے (زیادہ) مقبول بنالیا۔ نیز یہ عصیان درحقیقت نسیان تھا۔ جیسا کہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی، پارہ۱۶، صفحہ۲۷۰ پر ارقام فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا أَیْ عَلَی الذَّنْبِ، فَإِنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَا مُ اَخْطَأَ وَلَمْ یَتَعَمَّدْ؎ پس حضرت آدم علیہ السلام بھول گئے اور ہم نے ان کے اندر کسی قسم کا ------------------------------