کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اے جلیل اشکِ گناہ گار کے اک قطرے کو ہے فضیلت تری تسبیح کے سو دانوں پر جب فلک نے مجھ کو محروم ِ گلستاں کردیا اشک ہائے خوں نے مجھ کو گل بداماں کردیا (مجذوبؔ)تفسیر نفسِ مطمئنہ علامہ قرطبی نے جلد۲۰، صفحہ۵۷ پر اس کی تین تفسیریں کی ہیں: پہلی تفسیر:اَ لْاٰمِنَۃُ مِنْ عَذَابِ اللہنفسِ مطمئنہ وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے امن میں ہو،جس کی تفصیل یہ ہے کہ گناہوں سے قلب میں عذاب اور بے چینی رہتی ہے۔ جیسا کہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے ؎ گر گرفتار صفات بد شدی ہم تو دوزخ ہم عذابِ سرمدی اگر تم کسی گناہ کی عادت میں مبتلاہو تو سمجھ لو کہ تمہاری ذات خود جہنم ہے۔ اور ہر نافرمانی کا اثر یہی ہوتا ہے کہ دل پر عذاب اور کلفت کی مار ہوتی ہے اور یہ دنیا ہی میں دوزخ والی زندگی گزارتا ہے۔ بادشاہ جب کسی ملک پر حملہ کرتا ہے تو بادشاہ کو گرفتار کرتا ہے، چھوٹوں کو پکڑنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ پس احکم الحاکمین اپنے نافرمانوں کے اس حصہ سے عذاب کا آغاز فرماتے ہیں جو جسم کے تمام اعضا کا بادشاہ ہے یعنی قلب کو بے چین اور پریشان رکھتے ہیں۔ چناں چہ مثال کے لیے ایک واقعہ ہے ایک عشقِ مجازی کے مریض اور غیراللہ سے دل لگانے والے نے بیان کیا کہ ہر وقت دل پریشان رہتا ہے، نیند بھی نہیں آتی، ہر وقت اسی مردار کا خیال ستاتا ہے۔ احقر نے ان کو اپنا یہ شعر سنایا جو عشقِ مجازی کے انجام کا ترجمان ہے ؎