کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
عظمتِ حق کے سبب غیراولیٰ اور ترک مناسب کو ذنب سے تعبیر فرمایا ہے۔ جیسا کہ اکثر اہل اللہ پر اس نوع کے حالات طاری ہوئے ہیں اور ایسے حالات میں کفر کی نسبت بھی اپنی طرف کرلیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ نبی کو جس قدر ذنب سے بُعد ہے اتنا غیرنبی کو کفر سے نہیں۔ جب اطلاق اَبعد جائز ہوا تو اطلاق بعید میں کیا شک ہے؟ حق تعالیٰ کا ارشاد فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ میں ظن دلالت کرتا ہے کہ یہ آپ علیہ السلام کا اجتہاد تھا وَمِنْ ثَمَّ عَبَّرَ بِظَنَّ فَلَا یَلْزَمُ أَنَّہٗ خَطَرٌ بِبَالِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْجَانِبَ الْمُخَالِفَ اسی سبب سے ظن کے لفظ سے حق تعالیٰ شانہٗ نے تعبیر فرمایا۔ پس نہیں لازم آتا اس سے کہ جانبِ مخالف کا خیال بھی آیا ہو۔؎ ظن کے ترجمہ میں غور کیجیے کہ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کس قدر منصبِ نبوت کی عظمت اور عصمت کا حق ادا فرمایا ہے! اللہ تعالیٰ ہمارے ان اکابر کی قبروں کو اپنے انوار رضائے علیا سے منور اور معمور فرماویں، آمین۔ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا ط حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا ط وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا؎ والدین کے ساتھ احسان کا حکم فرماتے ہوئے ماں کا حق خصوصیت سے الگ بیان فرمایا گیا۔ (اور بالخصوص ماں کے ساتھ اور زیادہ) کیوں کہ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور پھر بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا، اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا اکثر تیس ماہ میں ہوتا ہے۔؎ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ میں کس کی ------------------------------