کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
نہ ہوگا۔ پس یہ دوسری مثال عالم صاحبِ نسبت کے علم کی مثال ہے اور اوّل مثال عالم ظاہر کے علم کی ہے ؎ قطرۂ علمے کہ دادی تو ز پیش متصل گرداں بدریا ہائے خویش یَاغِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ اہْدِنَا لَاافْتِخَارَ بِالْعُلُوْمِ وَالْغِنٰی اے خدا! آپ نے جو علم کا قطرہ جلال الدین رومی کی جان میں عطا فرمایا ہے اس قطرۂ علم کو اپنے غیرمحدود دریائے علم سے متصل فرمادیجیے۔ اے فریاد سننے والے فریاد کرنے والوں کی فریاد کے! مجھ کو ہدایت دیجیے اور ہدایت پر قائم بھی رکھیے۔ ہم کو اپنے علم پر کوئی بھی فخر نہیں اور نہ ہم علم کے سبب آپ کی عنایات سے مستغنی ہوسکتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کا کرم شاملِ حال نہ ہو تو علم ہوتے ہوئے بے عملی میں اہلِ علم مبتلا ہوجاتا ہے۔تربیت اور صحبتِ اہل اللہ کی تفہیم کے لیے دو عجیب مثالیں آملہ کے دو دانے درخت سے گرے۔ ایک حلوائی نے ایک دانے سے گزارش کی کیا آپ کو مربّہ بنادوں؟ آملہ نے سوال کیا کہ مربّہ کیسے بناتے ہو؟ حلوائی نے کہا کہ ہم آپ کے جسم کو سوئی سے چبھو چبھو کر آپ کے اندر سے کسیلا پانی نکال دیں گے۔ پھر پانی میں جوش دیں گے، یہاں تک کہ آپ کا ذرّہ ذرّہ پک کر نرم ہوجاوے گا۔ پھر شیرہ میں ڈال دیں گے اور آپ کو مرتبان میں سجاکر رکھا جاوے گا اور حکماء آپ کو چاندی کے ورق میں لپیٹ کر مریضوں کو کھلائیں گے۔ مفتی اعظم اور وزیراعظم بھی کھائیں گے۔ جن کا دل کمزور ہوگا دل کی طاقت کے لیے آپ کو تجویز کیا جائے گا۔ آپ مقوئ قلب ہوں گے۔ یہ سن کر ایک آملہ نے اپنی تربیت سپرد کردی۔ دوسرے نے ازراہِ تکبر انکار کیا اور کہا یہ مجاہدہ ہم سے برداشت نہ ہوگا۔ تربیت یافتہ آملہ مربۂآملہ