کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگرؔ وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانہ پہ چھاگیا اور اصغؔر گونڈوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں محو کھڑا ہوا ہوں میں حسن کی جلوہ گاہ میںحسنِ اخلاق کی تعریف مُدَارَاۃُ الْخَلْقِ مَعَ مُرَاعَاۃِ الْحَقِّ؎ حضرت عارف باللہ ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر حضرت حکیم الامت مجدد الملت رحمۃ اللہ علیہ کی تیس سالہ صحبت کے فیضان سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایسا ہی غلبہ تھا۔ اس نسبت مع اللہ کی برکت سے حضرت خلقِ خدا پر جہاں سراپا شفیق اور محسن تھے وہاں اتنا ہی درجہ اپنے معمولاتِ خلوت پر جبلِ استقامت تھے۔ حضرت کی مجلس میں یہ بات محسوس ہوتی تھی کہ آپ بیک وقت حقوقِ خلق اور حقوقِ خالق کا پورا پورا استحضار رکھتے تھے۔ احباب کے ساتھ شفقت اور رحمت کا ایسا رنگ تھا جو حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا جلتا تھا۔ جیسا کہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ہمارے حضرت حاجی صاحب سراپا رحمت و شفقت تھے، خفا ہونا اور ڈانٹنا تو جانتے ہی نہ تھے، لیکن آپ کا فیض عام اور تام تھا۔ آپ کے فیضانِ صحبت سے کوئی محروم نہ ہوتا تھا۔ علمائے عصر کا رجوع جس طرح حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہوا تقریباً اسی طرح پاکستان کے جلیل القدر علماء کافی تعداد میں اصلاح و تربیت کے لیے آپ سے منسلک تھے۔ حضرت نے کبھی اپنے کو مخدوم نہیں سمجھا اور ارشاد فرمایا کہ سندِ اجازت دراصل سندِ خادمیت ہے، سندِ مخدومیت نہیں۔ اور فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں راہ نما ہوں مگر بھائی ایک شعر سنو ؎ ------------------------------