کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
جو انتہائی نادانی اور محرومی و جہل ہے بلکہ سفاہت ہے۔ ایک بزرگ نے اس شعر کو مسلمان کردیا یعنی اس کی اصلاح کردی ؎ میں اسی منہ سے کعبہ جاؤں گا شرم کو خاک میں ملاؤں گا ان کو رو رو کے میں مناؤں گا اپنی بگڑی کو یوں بناؤں گا (عرفانِ محبت) وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ؎ (ترجمہ اوپر گزر چکا)۔اصرار علی الذنب کی صحیح تعریف تفسیر روح المعانی کی روشنی میںاَلْاِصْرَارُ الشَّرْعِیُّ الْاِقَامَۃُ عَلَی الْقَبِیْحِ بِدُوْنِ الْاِسْتِغْفَارِ وَالرُّجُوْعِ بِالتَّوْبَۃِاور اصرارِ لغوی: اَلثَّبَاتُ عَلَی الشَّیْءِ کسی چیز پر قائم رہنا۔ اصرارِ شرعی سے مراد ہے کہ کسی گناہ پر اس طرح جم جانا کہ استغفار و توبہ سے اس کی تلافی نہ کی جائے۔بعض لوگ نادانی سے سمجھتے ہیں کہ اگر توبہ بار بار ٹوٹ جائے تو وہ اصرار میں داخل ہے حالاں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت صاحبِ مشکوٰۃ نے نقل کی ہے: عَنْ أَبِیْ بَکْرِ نِ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ: أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ وَإِنْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے استغفار کرلیا وہ اصرار کرنے والوں میں نہیں ہے اگرچہ عود کرے وہ دن میں ستّر بار (گناہ کی طرف)۔ ------------------------------