کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
درسِ مثنوی حضرت جلال الدین رومی شعر (۱) سوئے آہوئے بصیدی تافتی خویش را در صید خو کے یافتی اے سالک! تو کبھی ہرن کے شکار کے لیے دوڑا اور تو تکبر اور ناز میں تھا کہ آج میں ہرن کا شکار کروں گا لیکن اچانک ہرن کے شکاری کو ایک جنگلی سور جھاڑی سے نکل کر اپنے منہ میں دبا کر اپنے نوکیلے دانتوں سے چبانے لگتا ہے۔ اس کا سارا ناز دھرا رہ جاتا ہے اور حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیا ہوا۔ یعنی جو سالک نسبت مع اللہ اور حصولِ دولت تعلق مع اللہ کے لیے شیخ سے وابستہ ہوکر ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے، کبھی نفس و شیطان اس کو جنگلی سور کی طرح صورت پرستی کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں یعنی کسی عورت یا نوجوان مرد کی محبت میں مبتلا ہوکر انتہائی ذلت اور پستی کے ساتھ پیشاب اور پاخانہ کے مقام پر اپنی زندگی کے ایام و لیالی (دن و رات) ضایع کرکے خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃْ کا مصداق بن جاتا ہے، لیکن توبہ کی سواری پر بیٹھ کر یہ شخص پھر پستی سے بلندی کی طرف اُڑسکتا ہے۔ فلنعم ماقال الرومیُّ رحمہ اللہ ؎ مرکب توبہ عجائب مرکب است تا فلک تا ز د بیک لحظہ زپست توبہ کی سواری عجیب بابرکت سواری ہے جو گناہ گار کو آنِ واحد میں گناہ کی ذلت کے غار سے نکال کر حق تعالیٰ کی بارگاہِ قرب میں پہنچادیتی ہے۔ اور گناہ گار کی آہ و زاری و اشکِ ندامت اللہ تعالیٰ کے یہاں نہایت محبوب ہے۔ گناہ گاروں کے آہ و نالہ سے دریائے رحمت میں اس طرح جوش آتا ہے کہ دم میں کافر صد سالہ فخرِ اولیاء ہوجاتا ہے ؎ جوش میں آئے جو دریا رحم کا گبر صد سالہ ہو فخر اولیاء